1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. لقمان ہزاروی/
  4. جے یو آئی کا سوشل میڈیا کنونشن

جے یو آئی کا سوشل میڈیا کنونشن

گذشتہ روز جمعیت علماء اسلام (ف) کے زیر اہتمام ایک سوشل میڈیا کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام میں مرکزی و صوبائی قیادت کے کچھ اراکین نے خطاب کیا اور ساتھ ساتھ میڈیا سے وابستہ کچھ لوگوں نے بھی اپنا اظہار خیال کیا۔ ایسے پروگرام ہونے چاہییں اور بہرپور انداز میں ہونے چاہییں۔ سوشل میڈیا اس دور میں ذرائع ابلاغ کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ اس پلیٹ فارم کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو یہ نہایت خوش آئند بات ہے۔ اس کے مثبت استعمال سے وہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں جو دوسرے ذرائع کے استعمال سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ سوشل میڈیا کیسے دوسرے ذرائع سے بہتر کارآمد ہے؟ 1۔ الیکٹرانک میڈیا کی زینت بننے کے لیے کچھ جمع پونجی خرچ کرنی پڑتی ہے جبکہ سوشل میڈیا کے لیے ایسا نہیں۔ 2۔ دوسرے ذرائع پر باآسانی آپ کی آواز کو لگام دی جاسکتی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر آپ مختلف طور طریقے سے اپنی آواز دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔ 3۔ دور حاضر میں ہر آدمی کا سوشل میڈیا سے کسی نہ کسی طرح کا واسطہ ہے جبکہ دوسرے ذرائع ابلاغ میں ایسا نہیں۔ 4۔ سوشل میڈیا میں ہو بہو آپ کی آواز پہنچے گی جبکہ دوسرے ذرائع پر کانٹ چھانٹ کے بعد پہنچے گی۔
جے یو آئی کا یہ پروگرام قابل تحسین ہے۔ ہر مذہبی و سیاسی جماعت کو ایسے ہروگرامات کا انعقاد کرنا چاہیے۔ ایسے پروگراموں میں قائدین کی طرف سے سوشل ورکرز کے لیے کیا ہونا چاہیے؟ایسے پروگراموں میں اپنے سوشل میڈیا ورکرز کو سوشل میڈیا کے فوائد سے آگاہ کریں، ہر مثبت کام کو سراہنے کا جذبہ پیدا کریں، مخالفین کے افعال و اقوال پر اچھے انداز میں تنقید کریں، اخلاق حسنہ کا دائرہ کار وسیع رکھیں، دلیل سے بات کریں، دلیل سے جواب دیں، دلیل سے عاری بات یا پیغام سے بلکل اجتناب کریں، خوامخواہ کا پروپیگنڈہ کرنے سے اجتناب کریں، اپنی جماعت کے غلط کاموں پر بھی تنقید کو خوش آئند سمجھیں، اپنے غلط کاموں کو بھی درست ثابت کرنے کے لیے وقت کا ضیاع نہ کریں، ایک تعلیم یافتہ ٹیم بنائیں جو کہ اچھے انداز میں اپنے پیغام کو پہنچائیں، اس ٹیم کے کام کو وقتا فوقتا جانچنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کریں اور گالی گلوچ کے بجائے صبر سے کام لیں۔ مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کے لیے یہ خصوصی قاعدہ کلیہ ہونا چاہیے کہ وہ غلط چیز کی بلکل تشہیر نہ کریں۔ کیونکہ یہ اسلام کے حکم کے بھی منافی ہے اور آپ کی جماعت کے اصول کے بھی خلاف ہے۔ گالی گلوچ سے بلکل پرہیز کریں۔ کیونکہ ہمارا دین بھی اس سے منع کرتا ہے اور پارٹی کا غلط امپکٹ بنتا جاتا ہے۔ جو سچ ہو اسے آگے سینڈ کردیں جھوٹ سے بلکل بچیں کیونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ مذہبی جماعتوں کے سوشل میڈیا ورکر میں یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنے قائدین پر تنقید کی ہوا تک برداشت نہیں کرسکتے اور بجائے اس کا دلیل سے جواب دینے کے گالیاں اور بد زبانی شروع کردیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عوام کو پہلے سے اسلام سے دور کرنے کی مہم چلائی جاچکی ہے، وہ آپ کے ایسے رویہ کو دیکھ کر مزید بد ظن ہوتے جائیں گے اور آپ کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔
مشاہدہ ہے کہ دینی جماعتوں کے کارکنان اپنے قائدین پر تنقید کو اسلام پر تنقید تصور کرتے ہیں۔ یہ بلکل بھی مناسب نہیں۔ قائدین پر تنقید ان کے مخالف ضرور کریں گے لیکن یہ آپ کیسے کہہ جاتے ہیں کہ یہ تنقید اسلام پر ہے۔ اسلام ایک مذہب ہے اور آپ کی قیادت کچھ شخصیات پر مشتمل ہے۔ شخصیات پر تنقید کو اسلام پر محمول نہ کریں۔ ہر انسان سے غلطی ہوتی ہے، غلط کام کر جاتا ہے انسان اور مخالف تو اس کوشش میں ہوتا ہے کہ کہیں سے کچھ اپنے مقابل پر بولنے یا لکھنے کو ملے۔ میرا نہیں خیال کہ وہ آپ کی قیادت پر تنقید کو اسلام پر تنقید سمجھ کر کرتے ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے یہ ہمارا غلط ذہن بن چکا ہے۔ اس سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ اپنے سینے کو کشادہ کریں۔ چھوٹے چھوٹے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اخلاق حسنہ اور قول حسنہ کو ترک نہ کریں۔ اپنے مخالف کے غلط فعل کو قبیح گردانیں اور اس کے اچھے کاموں کی خوشی سے تعریف کریں۔ یہ نہ کریں کہ کسی کے اچھے کاموں کو بھی برا قرار دینے کا آپ ٹھیکہ لیکر بیٹھ جائیں۔

لقمان ہزاروی

لقمان ھزاروی  گزشتہ دو سالوں سے سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل پر اپنے خیالات قلمبند کررہے ہیں۔ وہ ایک اچھا کالم نگار اور لکھاری بننا چاہتےہیں، ایک ایسا قلم کار جو حقائق پر مبنی تحاریر لکھے، حق و سچ کا بول بالا کرے۔