1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. لقمان ہزاروی/
  4. پاک بھارت جنگ سے زیادہ نقصان کس کا ہوگا؟

پاک بھارت جنگ سے زیادہ نقصان کس کا ہوگا؟

گذشتہ کچھ ایام سے پاک بھارت کشیدگی شدت اختیار کر چکی ہے۔ بھارت پاکستان کو سفارتی محاذ پر تنہائی کا شکار کرنے کے ساتھ ساتھ ہر محاذ پر تنہا کرنے کی مہم جوئی میں کود چکا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے اس وقت سے بھارت نے پاکستان کا وجود ختم کرنے کی اپنی بساط کے مطابق ہر کوشش کی ہے۔ پاکستان کے خلاف ہر سازش میں بھارت کا کوئی نہ کوئی کردار ہوتا ہے، کبھی تو یہ براہ راست ہوتا ہے اور کبھی بالواسطہ طور پر ہوتا ہے۔ یہ تو ہر ذی شعور اچھی طرح جان چکا ہے بھارت پاکستان کا کبھی دوست نہیں ہو سکتا۔ بے وقوف دوست سے سمجھدار دشمن بہتر آپشن ہوتا ہے۔ لگتا ایسا ہی ہے کہ بھارت پاکستان کا بے وقوف دوست بننے کا آرزو مند ہونے کے ساتھ ساتھ مکار دشمن بھی ہے۔ جسے پاکستان خوب سمجھتا ہے۔ کنٹرول لائن پر لڑی جانے والی کارگل جنگ میں بھارت کا نقصان پاکستان سے زیادہ ہوا تھا۔ لیکن بھارت نے اس سے سبق نہیں سیکھا اور پاکستان کو ختم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ بھارت جان چکا ہے کہ پاکستان ایک نا ختم ہونے والا دشمن ہے اور ایشیاء میں میری راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
منگل کے دن انڈیا نے جو دراندازی کی اس پر قوم مایوس تھی اور ندامت کے بادل قوم پر منڈلا رہے تھے۔ میں یہی سمجھ رہا تھا کہ پاکستان کوئی جوابی کاروائی نہیں کرے گا اور معمول کی طرح ہر کچھ ہوتا رہے گا۔ کہتے ہیں کہ جو گھونسہ لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ کی زینت بنا لینا چاہیے۔ لیکن ہوا اس کے برعکس، پاکستان نے ایک شاندار جوابی کاروائی کی جس سے عسکری و غیر عسکری قوتوں کے حوصلے بلند ہوئے اور پاکستانی قوم ایک بار پھر کہتے ہوئے تلملا اٹھی"پاک فوج کو سلام"۔ یہ جو کاروائی کی گئی ہے یہ بھارت کی دراندازی کا ایک جواب لگتا ہے۔ اب جو پاکستان نے سرپرائز دینا ہے اس کا فیصلہ عسکری و سیاسی قیادت ہی بہتر طور پر کرے گی۔ بہر کیف میں یہ سمجھتا ہوں کہ بھارت کو اسی کی آواز میں جواب دینا ہی بھارت کے پاگل پن کو لگام دے گا۔ ویسے بھی پانچ گنا بڑے دشمن سے خود پنگا لینا اچھا آپشن نہیں ہے، لیکن اگر دشمن خود پنگا لے تو اس کا جواب دگنا ہونا ضروری ہے اور یہی چیز بھارت کے لیے سبق بنے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ بھارت کیوں ایسا کررہا ہے؟ایک جواب تو سادہ سا سمجھ لیں کہ بھارت میں الیکشن کا سماں ہے اور الیکشن کے سماں میں بھارت کا ایسا رویہ روایتی ہے اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں کامیاب سی پیک سرمایہ کاری، افغانستان کے ساتھ بڑھتے تعلقات، سیاحت کا فروغ، امن و امان کی طرف بڑھتے حالات، کرکٹ کی واپسی، بھارتی ایجنسیوں کی پاکستان میں ناکامیاں اور سکھ گھرانوں کا پاکستان کے حق میں ہونا بھارت کو ہضم نہیں ہورہا اور یہ سب اسے بوکھلاہٹ کا شکار بنارہے ہیں۔ جس سے بھارت اپنی ہوش و حواس کھو رہا ہے اور سمجھ نہیں پارہا کہ ہم کیا کیا کریں؟ ایسے میں بھارت اپنی بے وقوفی کے آشکار نکھار رہا ہے اور پاکستان کو معاشی ترقی سے روکنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کررہا ہے۔ پاکستان کئی سالوں سے حالت جنگ میں ہے اور ایک نئی جنگ پاکستان کے حالات پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوگی۔ پاکستان یہ حقیقت بھی جانتا ہے کہ میرے پاس کھونے کو کچھ ہے بھی نہیں اور بھارت اس جنگ میں بہت کچھ کھو لے گا۔ کیونکہ حالت جنگ میں سرمایہ کار اپنا سرمایہ مارکیٹ سے اٹھا لیتے ہیں اور نئے سرمایہ کار آتے نہیں۔ پاکستان میں ویسے بھی اتنی سرمایہ کاری نہیں ہے اور بھارت میں بہت سرمایہ کاری ہے، اس جنگ سے بھارت میں سرمایہ کاری کو بڑا دھچکا پہنچے گا اور پھر بھارتی معیشت کمزور پڑتی جائے گی اور نتیجہ یہ ہوگا کہ اس جنگ کا معاشی طور پر زیادہ نقصان بھارت کو ہوگا۔ اس لیے بھارت بھی یہ نہیں چاہتا کہ جنگ ہو ہاں اگر بین الاقوامی عناصر اس میں بھارت کو سپورٹ کریں تو پھر کچھ بعید بھی نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کی سب سے بڑی قوت اس کی معیشت ہے اور اگر جنگ ہوجائے تو یہ اس کی سب سے بڑی ناکامی بھی ہوگی، لہذا بھارت بھی یہ جنگ نہیں چاہے گا اور یہ جنگ ہوگی بھی نہیں۔
پاکستانی قیادت کی طرف سے بھارت کو بار بار مذاکرات کی دعوت دینا ایک مثبت اور اچھا فیصلہ ہے۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جنگ سے انسانیت تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔ بھارت کو بھی سوچنا چاہیے کہ آج تک پاک فوج جو جنگیں ہوئی ہیں ان سے کیا فائدہ ہوا ہے اور کون فاتح ہوا؟پاکستان اس چیز کو سمجھتا ہے اور اسی لیے مذکرات کی بار بار دعوت دے رہا ہے۔ اس وقت دنیا میں یہی فلاسفی چل رہی ہے کہ اپنے مخالف کو جنگ سے بچتے ہوئے باقی ہر طرح کی جارحیت سے شکست دینی چاہیے۔ اب بھارت سے کسی طرح پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ جس طرح بھارت کرے اسی طرح کا رد عمل ہونا چاہیے۔ بھارت کے جارحانہ رویے کو کمزور کرکے دفاعی رویے پر مجبور کرنا چاہیے اور پاکستان کو جارحانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار نہ ہوسکے۔

لقمان ہزاروی

لقمان ھزاروی  گزشتہ دو سالوں سے سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل پر اپنے خیالات قلمبند کررہے ہیں۔ وہ ایک اچھا کالم نگار اور لکھاری بننا چاہتےہیں، ایک ایسا قلم کار جو حقائق پر مبنی تحاریر لکھے، حق و سچ کا بول بالا کرے۔