1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. لقمان ہزاروی/
  4. عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان

عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان

جب قوموں پر زوال آتا ہے تو سب سے پہلے انکے رویے مائل بہ زوال ہوتے ہیں۔ لوگوں میں تہذیب و شائستگی، اخلاق و کردار اورصبر و تحمل کا فقدان ہونے لگتا ہے۔ لہجوں میں تلخی اور چہروں پر کرختگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ تعمیر کے بجائے تخریب کا دوردورہ ہوتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ باہمی احترام، رواداری، صلح جوئی اور امن و آشتی کو پس پشت ڈال کر قتل و غارت گری اور بربریت کا چلن عام ہوجاتا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی تویہی کچھ تھا۔

قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی معاشروں میں عدم برداشت کا رجحان روزافزوں ہے۔ عدم برداشت کا یہ رجحان ہمارے سماجی مسائل کا ایک بنیادی سبب ہے۔ اسی سبب طبقاتی کشمکش، نسلی اور قومی امتیازات، انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انسان عہدِ جاہلیت کی طرف لوٹ رہا ہے، یا ہم ایک جدید عہدِ جاہلیت سے گزر رہے ہیں۔

ہماراموجودہ معاشرہ بھی ایک طرح سے دور جاہلیت کی تصویر کشی کر رہاہے۔ لوگوں کے رویوں میں صبر و تحمل اور برداشت نام کو نہیں۔ آئے روز ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ کلیجہ چھلنی ہوجاتا ہے

معاشرتی امور میں عدم برداشت کا رجحان انتہائی مضر ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اخوت کا جذبہ کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ معیشت تباہی کے دہانے پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ اس سے جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ غریب لوگ غربت کو برداشت نہیں کرپاتے اور خودکشی کا سہارہ لیتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو معاف نہیں کرتے۔ اوروں کی زیادتیوں کو درگزر نہیں کرتے جس سے جھگڑے اور فسادات عام ہوگئے ہیں۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد گرامی ہے: "آپ ﷺ نے تمام زندگی اپنے اوپر کی گئی زیادتی کا بدلہ نہیں لیا، بجز اس کے کہ خدائی حرمت کو پامال کیا گیا ہو، پس اس صورت میں آپ ﷺ سختی سے مواخذہ فرماتے تھے۔ موجودہ دور میں برداشت کی زندہ مثال ہم اپنے پڑوس ملک افغانستان میں دیکھ سکتے ہیں، جہاں طالبان نے بیس سال اپنے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے بعد فتح یاب ہوتے ہی عام معافی کا اعلان کیا اور رہتی دنیا کے لیے نمونہ اخلاق قرار پائے۔

عدم برداشت کی وجوہات کا جائزہ لیاجائے تویہ ہمہ جہت ہیں۔ بہت سے ذہنی، نفسیاتی، اخلاقی، معاشی اور سماجی مسائل عدم برداشت کو جنم دے رہے ہیں۔ ایک معاشرے میں مختلف مزاج رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ کچھ لوگ نہایت جذباتی ہوتے ہیں اور کچھ قدرے معتدل مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جذباتی لوگ ذرا سی بات پر سیخ پا ہوکرشدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ رد عمل کے طور پر فریق مخالف میں دبی چنگاری بھی سلگ اٹھتی ہے اور وہ اپنے مثبت رویے کوپس پشت ڈال کر منفی رویہ اپنا لیتاہے۔

عدم برداشت کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اس کا آغاز اپنی ذات سے کریں۔ ایک مثبت رویہ بہت سے مثبت رویوں کو جنم دیتا ہے۔ اپنی رائے کو حتمی سمجھنا، بے جاتنقید، خوامخواہ کی بحث اور طعن و تشنیع کو ترک کرکے ہم اس وبا کو مزید پھیلنے سے روک سکتے ہیں۔ اختلاف رائے ہمیشہ دلیل سے ہونا چاہیے اور دوسروں کی رائے کا بھی احترام ہونا چاہیے۔ سیاسی یا مذہبی مخالفین کی عزت نیلام کرنے کے بجائے ہم انکے ساتھ نہایت احترام کا رشتہ رکھیں۔ صبروتحمل اور بردباری و برداشت کا مظاہرہ کریں۔ ہم اپنے رویے میں مناسب تبدیلی لاکر عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

لقمان ہزاروی

لقمان ھزاروی  گزشتہ دو سالوں سے سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل پر اپنے خیالات قلمبند کررہے ہیں۔ وہ ایک اچھا کالم نگار اور لکھاری بننا چاہتےہیں، ایک ایسا قلم کار جو حقائق پر مبنی تحاریر لکھے، حق و سچ کا بول بالا کرے۔