1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. قاسم علی خان/
  4. میرا غم

میرا غم

اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ اور میں، ہم سب اپنی اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی اپنی اپنی مرضی کے گھرانوں اور خاندان میں پیدا ہوئے۔ ایک خاص ترکیب اور عمل سے گزرنے کے بعد جب ہماری آنکھ فانی دنیا میں کھلتی ہے تو اُس وقت ہمارے پاس اپنا کچھ نہیں ہوتا حتیٰ کہ اپنا نام اپنا تعارف بھی نہیں ہوتا وہ خاتون جس نے آپ کو جنم دیا اور اِس معاملے میں اُس نے ایک مشکل اور طویل سفر تہہ کیا۔ آپ کی پیدائش کے بعد وہی خاتون بنام ماں آپ کی دیگر خدمات کے لئےمعمور رہتی ہے۔ اُس ماں کی خدمت کے بدلے میں آپ کے دل میں اُس خاتون کے لیے محبت کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے اور یہی پہلی محبت ہوتی ہے جو تادیر یا ہمیشہ کے لئےقائم رہتی ہے، باپ کا مقام کافی دیر بعد سمجھ میں آتا ہے۔ کچھ کو بالغ ہونے کے بعد اور کچھ کو عمر کے کسی بھی حِصّے میں جا کر، یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے کچھ کو باپ کا رُتبہ جلد سمجھ میں آ جاتا ہے، کچھ کو دیر سے اور بڑی معافی کے ساتھ کچھ کو باپ کا مقام سمجھ میں ہی نہیں آتا وہ اُس رُتبے کے شعور تک کبھی پُہنچ ہی نہیں پاتے۔

بہرکیف مجھے نام بھی کسی نے دیا۔ تعارف بھی اوروں سے مِلا۔ خوشی بھی اوروں کے آجانے سے ہوئی یا باہری دنیا سے کچھ مِل جانے کی ہوئی۔ غم بھی اوروں سے مِلا کسی کو کھو جانے سے یا کسی مِلی ہوئی شے کے چلے جانے سے، گو کہ غم پرایا خوشی بھی پرائی۔ جو مِلا کمال مِلا کہ کھو جانے کے لیے مِلا۔ کیسی بھی خوشی ہو اگر آپ ایمانداری سے حساب لگائیں تو معلوم ہوگا کہ وہ کسی کی وجہ سے ہوئی ہے اور جو بھی غم، پریشانی کی شکل ہے وہ بھی اوروں کی وجہ سے بنی ہے۔ میں تو گمنام آیا تھا۔ میرا اپنا غم تو ہونا ہی نہیں چاہئے، میں گمنام تھا، آج گمنام یا کم از کم بنام میت کے جا رہا ہوں۔ ہاں ایک مٹی کا وجود اور مٹی کے وجود میں اللہ لے کر آیا تھا۔ مجھے اپنی مٹی کی شناخت کرنی تھی اور رَبّ کے ساتھ تعلق کو گہرا کرنا تھا مگر افسوس ہم بھول گئے، ہاں میری مٹی کے چِھن جانے کا مجھے افسوس ہونا ہے مگر کمال ہے آج میں اپنی مٹی کا مالِک اپنی ہی مٹی کے فنا ہونے پر، مجھے میری موت کا غم ہی نہیں اور آج میں بالکل چُپ چاپ ہوں کوئی غم نہیں بلکہ اپنا غم اوروں کو دے کر جا رہا ہوں۔ جو میرا تھا یعنی میرا وجود جس کے چِھن جانے پہ مجھے غم ذدہ ہونا چاہئے تھا یعنی میری موت کے آنے پر، حیرت ہے یہ غم میرا تھا مجھے ہوا ہی نہیں بلکہ اوروں کو دے کر جا رہا ہوں اور ادھر لوگ چیزوں کے کھو جانے سے پریشان ہو جاتے ہیں بَھلا اِسی منڈی سے کمایا اِسی منڈی پہ لگایا اس میں کون سی کمال کی بات ہے ہاں غم رِشتوں کے اِس دنیا سے چلے جانے سے ضرور ہوتا ہے کیونکہ یہاں انسان بے بس ہوتا ہے اور یہ بھی آپ کی اُس رشتے کے ساتھ محبت کی علامت ہے۔

بہر کیف میری مٹی کا غم اوروں کے دامن، ایسے ہی مختلف رِشتوں کے ساتھ تعلق داری کی بِنا پر ہم اوروں سے خوشیاں اور غم لیں لیں کر اپنے دامن کو بھر لیتے ہیں اور اپنے حِصے کا غم اوروں کو دے جاتے ہیں، سچ یہی ہے جو مٹی کمال دِکھا جاتی ہے جس مٹی کے ساتھ جتنا گہرا تعلق ہوتا ہے اُس مٹی کے اِس جہانِ فانی سے چلے جانا کا غم بھی اُتنا ہی بڑا اور گہرا غم ہوتا ہے۔ خیر جن لوگوں کی مٹی دنیا میں آکر اپنے آپ سے مِل جاتی ہے یعنی اپنے مقصدِ حیات کو پا لیتی ہے اور اپنے حِصے کا بڑا کام کر جاتی ہے اُس مٹی کو بعد میں بھی یاد رکھا جاتا ہے دعاؤ کی شکل میں اور اُن سے سمجھ والوں کو مُتواتر رہنمائی بھی ملتی رہتی ہے۔ آج سے آپ بھی دعا مانگیں اور جس مقصد کے ساتھ آپ کی تخلیق کی گئی ہے اُس کی تلاش میں، اُسکی کھوج میں لگ جائیں یہ تلاش ایک ایسی واحد تلاش ہے کہ جِس کا جواب فوراً مِل جاتا ہے مگر اِس بات کی سمجھ لوگوں کو بہت دیر بعد آتی ہے کچھ کو دس سال بعد کچھ کو عمر کے آخری حِصّے میں اور کچھ کو بہت جلد اِس راز سے آشنائی ہو جاتی ہے خیر یہ تقسیم میرے مالَک کی ہے، آپ بس دعا مانگتے رہیں اور جو بھی بھلائی کا کام کریں، جو بھی نیکی کریں اُس میں نیت یہ رکھیں کہ اے اللہ میرے اِس کام کو میرے مقصدِحیات پہ لگا دے ان شاءاللہ کرم ہونا شروع ہوجائے گا۔

خیر میرا غم تو ایک ہی ہونا چاہئے تھا میرے چِھن جانے کا اور ادھر میں گھر، مکان، جگہ، گاڑی، پیسے وغیرہ کے چِھن جانے پہ افسوس کر رہا ہوں جیسے میں اِن چیزوں کا حقیقی وارث تھا اپنے ساتھ اِن چیزوں کے اشٹام پیپرز لے کر آیا تھا۔ نا۔ بابا۔ نا ہمیں اپنے اندر کے انسان کو سمجھانے کی ضرورت ہے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی غفلت کرتے کرتے۔ واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں غافل کی آنکھ تب کُھلتی ہے جب بند ہوتی ہے۔ اللہ آپ کو مجھے، ابھی سے سمجھ عطا فرمائے۔ میں چاہتا ہوں کہ جب آپ کی اور میری آخری ڈولی اُٹھے تو لوگوں کا ہجوم ہو نہ ہو مگر میرا رَبّ، کاہنات کا رَبّ، عرشو ں کا مالک، ہر شے کا شہنشاہ اور اُس کا حبیبﷺ آپ سے اور مجھ سے راضی ہو پھر میرا غم، میرا غم نہیں، میری خوشی ہوگا۔