1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شاہد کمال/
  4. گماں کی زَد میں رہے بدگمانیوں میں رہے

گماں کی زَد میں رہے بدگمانیوں میں رہے

گماں کی زَد میں رہے بدگمانیوں میں رہے
ہم ایسے لوگ کہاں خوش گمانیوں میں رہے

زمین دل کی طنابوں پہ وار کرتے ہیں
کچھ ایسے زخم لہو کی روانیوں میں رہے

ترے بدن کے دہکتے ہوئے گلاب کی بُو
صبا کے لمس ہَوا کی نشانیوں میں رہے

جو اپنے آپ سے کرتے رہے بلا گریز!
کچھ ایسے لوگ ہماری کہانیوں میں رہے

کسی کے وصل کی خوشبو بسی ہو آنکھوں میں
کسی کے ہجر کا کاجل نشانیوں میں رہے

جسے ہے خواہش جاہ و جلال و مال و منال
امیر شہر کی ریشہ دوانیوں میں رہے

تمہیں بتائیں کہ اندیشہ زیاں کیا ہے؟
ہمیں خبر ہے کہ ہم رائگانیوں میں رہے

بساط شعر الٹ دی ہے نکتہ دانوں نے
ہم ایسے اہل سخن بد زبانیوں میں رہے