1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شاہد کمال/
  4. عجب نہیں ہے، کہ الزام میں نہیں آتا

عجب نہیں ہے، کہ الزام میں نہیں آتا

عجب نہیں ہے، کہ الزام میں نہیں آتا
ہمارا نام کسی نام میں نہیں آتا

میں کھولتا ہوں بدن کی گرہ تسلسل سے
مگرجنون کی افہام میں نہیں آتا

کسے ملال ہے زخموں کی رائیگانی پر
ہمارا درد کسی کام میں نہیں آتا

ہمارا دل ہے سو اس بات کا خیال رہے
کسی بھی قریہ گمنام میں نہیں آتا

بدن کی ریت میں سب جذب ہوتا رہتا ہے
لہو جگر کا مرے جام میں نہیں آتا

کمند ڈالی ہے ظالم نے کس سلیقے سے
غزال ہے کہ مگر دام میں نہیں آتا

مصالحت شب غم سے کمال نے کرلی
کہ اب خلل کوئی آرام میں نہیں آتا