1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شاہد کمال/
  4. چشمِ صحرائی سے باتیں کرتے ہیں

چشمِ صحرائی سے باتیں کرتے ہیں

چشمِ صحرائی سے باتیں کرتے ہیں
سورج بینائی سے باتیں کرتے ہیں

شب کی رعنائی سے باتیں کرتے ہیں
آؤ تنہائی سے باتیں کرتے ہیں

جانے کیوں اب شام ڈھلے یہ دیدۂ و دل
وحشت آرائی سے باتیں کرتے ہیں

جھوٹ سے اُن کا نسبی رشتہ ہے لیکن!
پھر بھی سچائی سے باتیں کرتے ہیں

چیخ اُٹھے ہیں درد اچانک، زخم مِرے
شاید پُروائی سے باتیں کرتے ہیں

اِن کو ہاں! طفلانِ کوچہ گرد نہ کہہ
کتنی دانائی سے باتیں کرتے ہیں

جانے اُن کو پھر کس نے مغرور کیا
وہ بے پروائی سے باتیں کرتے ہیں

دنیا بھر میں ہم شاہدؔ بد نام مگر
پھر بھی اچھائی سے باتیں کرتے ہیں