1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شاہد کمال/
  4. غبار زخم فضا میں اچھال آے ہیں

غبار زخم فضا میں اچھال آے ہیں

غبار زخم فضا میں اچھال آے ہیں
ہوا کے پاوں میں زنجیر ڈال آے ہیں

بڑا غرور تھا دنیا کوخود پہ سو اس کو
ہم اک فقیر کے کاسہ میں ڈال آے ہیں

سمندروں پہ ابھی تک سکوت طاری ہے
کچھ ایسے تشنہ لبوں کے سوال آے ہیں

شکستہ جسم کے دیوار و در مہک اٹھے
وہ آج پھر سر دشت خیال آے ہیں

ندامتوں کے گہر جستجو کے ہاتھوں میں
سمندروں کی تہیں تک کھنگال آے ہیں

جنھیں غرور تھا سورج دماغ ہونے پر
کہ دو پہر میں انھیں کو زوال آے ہیں

پھر آج شہر خرابتیوں کی محفل میں
خود اپنے ساتھ میں آے ہیں