1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شاہد کمال/
  4. خوشیاں مت دے مجھ کو، درد و کیف کی دولت دے سائیں

خوشیاں مت دے مجھ کو، درد و کیف کی دولت دے سائیں

خوشیاں مت دے مجھ کو، درد و کیف کی دولت دے سائیں
مجھ کو میرے دل کے اک، اک زخم کی اُجرت دے سائیں

میری اَنا کی شہ رگ پر خود میری اَنا کا خنجر ہے
میرے لہو کے ہر قطرے کو پھر سے حدّت دے سائیں

اسم ذات کا راز ہے جو، خود میرے اوپر فاش تو کر
میرے دل کے آئینے کو پھر سے حیرت دے سائیں

توڑ بھی دے دیوارِ نفس جو بیچ میں میرے حائل ہے
مجھ کو مجھ سے ملنے کی اک بار تو مہلت دے سائیں

میں بھی تو مٹی ہوں وہ بھی تیرے چاک کی مٹی ہوں
اپنے چاک کی مٹی کو اچھی سی صورت دے سائیں

دنیا کا یہ جاہ و حشم یہ منصب یہ جاگیر ہے کیا
دولت کیسی مجھ کو میرا کاسہ عسرت دے سائیں

میرے اس لہجے کو بھی اب ایک نیا آہنگ تو دے
میرے سارے الفاظ و افکار کو ندرت دے سائیں

کارِ جہاں کے منصب سے تُو شاہدؔ کو معزول بھی کر
کام اسے جو کچھ بھی دے وہ حسب ضرورت دے سائیں