1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شاہد کمال/
  4. کیا کرتے کہ اقرار کی صورت بھی نہیں تھی

کیا کرتے کہ اقرار کی صورت بھی نہیں تھی

کیا کرتے کہ اقرار کی صورت بھی نہیں تھی
ہم کرتے جو انکار یہ جرأت بھی نہیں تھی

رویا ہوں بہت دیر تلک تجھ سے بچھڑ کر
مجھ کو تو مگر تجھ سے محبت بھی نہیں تھی

وہ دن بھی عجب دن تھے فراغت کے شب و روز
جیتے تھے مگر جینے کی فرصت بھی نہیں تھی

ہم جیتے بھی آخر تو کس امید پہ جیتے
پاس اپنے تو کچھ درد کی دولت بھی نہیں تھی

کیا حال ہے اُس صاحبِ دستار سے پوچھو
اپنی تو یہاں پر کوئی عزت بھی نہیں تھی

یہ اہلِ خرد چاک گریبان سے کیوں ہیں؟
کچھ اتنی جنوں خیز تو وحشت بھی نہیں تھی

کہنے کو تو ہم سچ کے طرفدار تھے لیکن!
سچ کہنے کی ہم لوگوں میں عادت بھی نہیں تھی

کیوں لوگ بلاتے ہیں ترے نام سے مجھ کو
مجھ کو تو ترے نام سے نسبت بھی نہیں تھی