1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شاہد کمال/
  4. پھر کوئی دست خوش آزار مجھے کھینچتا ہے

پھر کوئی دست خوش آزار مجھے کھینچتا ہے

پھر کوئی دست خوش آزار مجھے کھینچتا ہے
جذبہ عشق سرِ دار مجھے کھینچتا ہے

میں محبت کے مضافات کا باشندہ ہوں
کیوں ترا شہرِ پُر اسرار مجھے کھینچتا ہے

یہ بھی حیرت ہے عجب، خود مری تمثال کے ساتھ
آئینہ بھی پسِ دیوار مجھے کھینچتا ہے

دم بھی لینے نہیں دیتا ہے مسافت کاجنون
پَا برہنہ وہ سرِ خار مجھے کھینچتا ہے

پھر کوئی تیر ہدف کرتا ہے مشکیرہ کو
پھر کوئی دستِ کماں دار مجھے کھینچتا ہے

بولیاں جس کی لگے میں کوئی یوسف تو نہیں
کس لئے مصر کا بازار مجھے کھینچتا ہے

ہے کوئی گریہ کن حرف پسِ خیمہ جاں
پھر کوئی نالہ آزار مجھے کھینچتا ہے

تجھ کو معلوم ہے شاہدؔ بھی ہے مغرور بہت
کیوں ترا حُسن انادار مجھے کھینچتا ہے