1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شاہد کمال/
  4. یقیں کہتے ہیں جس کو اُس میں اک امکان رہتا ہے

یقیں کہتے ہیں جس کو اُس میں اک امکان رہتا ہے

یقیں کہتے ہیں جس کو اُس میں اک امکان رہتا ہے
میں پتھر ہوں تو اس پتھر میں اک انسان رہتا ہے

تمہارے شہر کی بنیاد میں آسیب ہے کوئی
یہاں جو شخص رہتا ہے بہت حیران رہتا ہے

اُٹھاتا ہوں میں اک شئے دوسری شئے ٹوٹ جاتی ہے
مرے ہر فائدے میں بھی کوئی نقصان رہتا ہے

عجب شور طاطم ہے مری خاموشیوں میں بھی
مرے سینے میں پوشیدہ کوئی طوفان رہتا ہے

تمہاری چاہتوں کی ہر روز اک تازہ کہانی ہے
ہمارے عشق کا بھی اک نیا عنوان رہتا ہے

مجھے ڈر ہے اگر ملنا تو مجھ سے فاصلہ رکھنا
میں سنتا ہوں مرے اندر کوئی حیوان رہتا ہے

حسد، نفرت، محبت، آرزو، خواہش، عداوت بھی
مرے اندر ضرورت کا ہر اک سامان رہتا ہے

کوئی تو بات ہوگی اس کی ناانجانیوں میں بھی
اے میری جان شاہدؔ تجھ سے جو انجان رہتا ہے