1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شاہد کمال/
  4. یہ جو کرتے ہیں سخن دل کو دُکھانے والے

یہ جو کرتے ہیں سخن دل کو دُکھانے والے

یہ جو کرتے ہیں سخن دل کو دُکھانے والے
سب ہُنر سیکھ لئے ہم نے زمانے والے

اک عجب طُرفہ تماشہ ہے یہ کیفیت دل
یاد آتے ہیں بہت یاد نہ آنے والے

پھر وہی دن ہے وہ رات وہی کوچہِ یار!
پھر وہی لوگ وہی روگ پُرانے والے

اے مرے دشت جنوں خیز پذیرائی کر
آگئے دیکھ ترے خاک اڑانے والے

اتنی حیرت سے مرا کاسہ و کشکول نہ دیکھ
بول اب ہیں وہ کہاں تیرے خزانے والے

کیا ہوا ان کو ذرا حال تو پوچھو ان سے
اتنے خاموش ہیں کیوں شور مچانے والے

اے مرے دل تو ہر اک حال میں خوش رہنا سیکھ
اب کہاں ہیں وہ ترے ناز اٹھانے والے