1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. حقیقی تبدیلی

حقیقی تبدیلی

ملکی تاریخ میں موجود بیشتر نعروں کی جگہ آج کل نیا نعرہ زور پکڑ رہا ہے جسے تبدیلی سے منسوب کیا گیا ہے۔ عمران خان تبدیلی کے سر ورق ہیں۔ بقیہ تبدیلی ایک کتاب کی طرح ہے۔ جو ابھی تک کسی روشنائی سے آشنا نہیں ہوئی۔ میری سادہ لوح قوم حسبِ روایت اور حسبِ ذائقہ تمام تبدیلی کے جانبازوں کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے۔ اور یہ کسی بھی قوم کی بیداری کا شاخسانہ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال تھی۔ سرکاری مراعات یافتہ سیاسی کارکن اور کسی حد تک مذہبی راہنما بھی اسے قائد اعظم علیہ رحمہ کا ایک کانڈھ اور ڈھونگ سمجھتے تھے۔ ان پر تنقید اور فتاویٰ کا سلسلہ قیامِ پاکستان کے بعد تک جاری رہا اور جو اس احسان فراموش قوم نے محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ کے ساتھ کیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

طرح طرح کی اختراعات بازارِ سیاست میں موجود ہیں۔ کوئی خود کو جیالا کہتا ہے تو کوئی پٹواری النسل کہلایا جاتا ہے۔ قومِ یوتھ اس معرکے میں منفرد مقام رکھتی ہے۔ طبقات کی تقسیم ہوچکی۔ ہر سیاست دان اپنی ہیرو پنتی کا منجن بیچنے صبح نکلتا ہے اور رات خود آرام سے سو جاتا ہے اور ہم تمام رات اپنے طبقے کی فکر میں رہتے ہیں۔ تاریخ بھی عجیب ہے دنیا میں جب بھی کبھی کسی صحافی پر کڑا وقت آیا سب صحافی یک مشت ہوگئے۔ کسی جاگیردار کی جاگیر خطرے میں پڑی تو دوسروں نے اسے سنبھالا دیا۔ کسی سیاست دان کا برا وقت شروع ہوا تو سب سیاستدان یک زبان ہوگئے۔ لیکن بد قسمتی سے ہم کبھی ایک نہ ہوئے نہ ہمیں ایک ہونے دیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر صحافی، ڈاکٹر، آلِ یہود، سیاستدان اور مفاد پرست طبقہ باہمی دلچسپی کے امور پر ایک ہو جاتا تھا تو کیا ہمارے مسائل ایک جیسے نہ تھے۔ کیا ہمارا طبقہ ایک نہ تھا؟ کیا ہم میں کوئی بھی قدرِ مشترک نہ تھی؟ اور اگر تھی تو پھر ہم ایک کیوں نہ ہوئے؟

ملک میں سیاسی جماعتوں کا ایک جمِ غفیر ہے لیکن بدقسمتی سے ہم آج تک ایک راہنما سے محروم رہے۔ ہماری عقیدت میاں صاحبان، خاں صاحبان، بھٹوازم سے زیادہ اور ملک و ملت سے ناپید ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ہماری یہ حالت ایسی ہوتی۔ لیکن ہمیں اس سے کیا؟

پارٹی پرچموں کی بہار میں میرا سبز ہلالی پرچم بیچارہ چھپتا پھرتا ہے۔ نالہِ پروردگار بھی کس منہ سے کریں۔ اس نے ہمیں دنیا کی عظیم ریاست کا تحفہ دیا اور ہم نے اس میں انواع و اقسام کی سیاسی اجناس کی پیداوار شروع کردی۔ تبدیلی نعرہ کم لعنت زیادہ بن چکی ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت کرید کے دیکھ لیں آپ کو وطن پرستی کے لبادے میں مفاد پرستی نظر آئے گی۔

ہم رہن سہن یورپ والا چاہتے ہیں لیکن قانون یوگنڈا، صومالیہ والا چاہتے ہیں۔ ہم معاشی طور پر امریکہ اور چین کے مقابلے کی بات کرتے ہیں لیکن کام کو وجہ موتِ حیات گردانتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں عمران خان، نوازشریف تو کیا نیلسن منڈیلا، مہاتیر محمد، طیب اردوان بھی ہماری کسمپرسی کا علاج کرنے سے قاصر رہتے۔

اندھا دھند تقلید وبالِ ریاست بن چکی ہے۔ سب کے قائد واجب الاحترام اور نیک نیت ہیں تو پھر مسئلہ کہاں ہے؟ ریاستی ادارے ریاستی کم اور سیاسی ادارے زیادہ بن چکے ہیں۔ فوج پر تنقید کے نشتر چلانے والے اپنا گریباں بھی تو دیکھیں کہ انہوں نے قوم کے لیے کیا کیا ہے۔ سرد جنگ میں ایک وقت تھا کہ ریاست لا اینڈ آرڈر پر مکمل طو ر پر بے بس ہوچکی تھی۔ دھماکوں کی آواز میں صبح ہوتی اور یونہی شام کی روداد تھی۔ لیکن فوج نے اپنے حصے کا کام کردکھایا۔ ایک بدترین دہشت زدہ ریاست سے پرامن ریاست بنانے میں اگر کسی کا کمال ہے تو وہ فوج ہی ہے۔ دنیا کی کم ترین اجرت پر کام کرنے والی فوج قصوروار ہے؟ جرنیلوں کو آمر کہا جاتا ہے تو کبھی کسی نے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ جرنیلوں کی ترقیاں اور تعیناتیاں سیاسی عمل دخل کے بغیر ناممکن ہیں۔ نیک نیت اور مخلص لوگ سیاسی عتاب کا نشانہ بنتے ہیں اور من مرضی کے لوگوں کو پروموٹ کیا جاتا ہے؟ اس کا جواب کون دے گا۔

دو ٹکے کا چور اچکا پیسے کے بل بوتے پر وزیر بن کر اسمبلی جا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ چالیس برس تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے والا جرنیل اسکے ہر اچھے برے کام پر حکم کی تعمیل کرے؟ یہ زیادتی نہیں ہے کیا؟ ایک انفنٹری کیڈٹ سے لے کر ایک جرنیل تک پہنچنے میں ایک عمرِ خطیر صرف ہوتی ہے۔ کتنے نوجوان افسروں کے لاشے اٹھتے ہیں۔ اور اگر مسئلہ جرنیلوں کے ساتھ ہے تو پھر پوری فوج کو کیوں اپنی ذاتی انا اور مفاد کی بھینٹ چڑھا یا جاتا ہے۔ سیاست دان کو سوئی بھی چبھتی ہے تو دنیا میں ہلچل مچ جاتی ہے لیکن کبھی ہم نے سوچا ہے کہ آئی ایس آئی نے دنیا کی نمبر ون ایجنسی بننے کے لئے کتنی جانیں گنوائیں جن میں اکثریت کا تو کسی کو علم بھی نہیں کہ وہ موت کی کس وادی میں جاسوئے۔ ہر جگہ تبدیلی آچکی تو ہمارے ذہنوں کی تبدیلی کب تک موخر ہے؟ یہ کٹڑ نون لیگی، جیالے، انصافی، قادری، الحدیث، سنی، وہابی، مسلمان تو ہم ہیں ہی تو کٹڑ پاکستانی ہم کب بنیں گے؟

عامر ظہور سرگانہ

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔