1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. ہاکی کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

ہاکی کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

28 اکتوبر کی درمیانی رات سننے کو ملا کہ ایشین چیمپئن ٹرافی کا فائنل جو پاکستان اور بھارت کے مابین اومان کے شہر مسقط میں کھیلا جانا تھا بوجہ بارش کھیلا نہیں جاسکا۔ جس بنا پر پاکستان اور بھارت کو مشترکہ طور پہ چیمپئن کا ٹائٹل دے دیا گا۔ دونوں ٹیمیں مجموعی طور پر تین تین بار ایشین چیمپیئن بن گئیں۔ دونوں ٹیموں کو مشترکہ فوٹو سیشن اور ایک ہی ٹرافی کے ساتھ چمٹے دیکھ کر کھسیانی مسکراہٹ چہرے پہ نمودار ہوئی۔ ہاکی سے شغف رکھنے کے باعث ہاکی کا درد دل میں پنپتا ہے لیکن سماجی بے حسی دیکھ کر دم توڑ دیتا ہے۔ یہ معجزہ ہی تھا کہ شدید بارش کے سبب میچ ممکن نہ رہا اور اللہُ نے عزت رکھ لی ورنہ اپنی ٹیم کی حالتِ زار سے تو یہی لگتا تھا کہ محنت کا یہ پھل بھی ممکنہ طور پر بھارت کی جھولی میں چلا جاتا۔

ہم نفسیاتی اور اخلاقی طور پر تو ہار چکے تھے جب یہ خبریں میڈیا کی زینت بنیں کہ دنیا کی ساتویں اور واحد اسلامی ایٹمی ریاست کے قومی کھیل کی نمائندگی کرنے والی ہاکی ٹیم خالی جیب مسقط پہنچ گئی۔ اور نجی ہوٹل نے اپنے واجبات کی عدم ادائیگی پر ٹیم اور انتظامیہ کے پاسپورٹ ضبط کرلیے۔ اور اگر اب بھی واجبات ادا نہ کیے جاتے تو معاملات مقامی پولیس کے سپرد کردیئے جاتے۔ تو سننے کو ملا کہ ایک لمبے عرصے سے فیڈریشن پر قابض ملکی خدمت سے سرشار اور بے لوث سابق وزیر احسن اقبال کے سمدھی سابقہ بریگیڈیئر خالد سجاد کھوکھر نے اپنی ذاتی نوعیت میں واجبات ادا کر دیے۔ یہ ادارے کے سربراہ کا طرزِ عمل ہے تو باقی فیڈریشن کو تو بھول ہی جائیں۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کچھ ماہ قبل ایک ایشو میڈیا کی زینت بنا جب ہاکی ٹیم کی سہولیات اور ٹرانسپورٹ کے مسئلے نے سر اٹھایا تھا۔ ہاکی پہلے کیا کارکردگی کی وجہ سے کم بدنام ہے جو اب معاشی نیک نامی بھی سمیٹنا چاہتے ہیں! کھوکھر صاحب فیڈریشن کے کرتا دھرتا ہیں۔ شہباز سینیئر صاحب سیکریٹری ہیں۔ حال ہی میں ڈائریکٹر ڈومیسٹک ڈویلپمنٹ نوید عالم نے الزامات کی بوچھاڑ کی اور فیڈریشن میں جاری دھینگا مشتی کو بے نقاب کیا۔ لیکن اب ہی کیوں؟ پہلے خاموش تماشائی کیوں بنے رہے؟ شائید اس لیے کہ ان کے چھوٹے بھائی تحریک انصاف سے جڑے ہیں اور وہ اگلے سیکریٹری کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ سہیل عباس جیسا لازوال پلیئر جو آج بھی ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل لیگز کھیل کر اپنا نظامِ زندگی چلا رہا ہے۔ اس کے کسی عہدہ کی ڈیمانڈ نہ کرنا کو اس کی خوداری کہہ سکتے ہیں۔ ہاکی کا گراف اتنا نیچے کیوں؟ ڈومیسٹک تو دور انٹرنیشنل میچز بھی لائیو ٹیلی کاسٹ نہیں ہوتے۔ جیتو یا ہارو ایک مبہم سی آخری صفحات پر خبر لگا دی جاتی ہے۔ یہی سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا۔ ہر ٹورنامنٹ سے پہلے ٹیم مینجمنٹ تبدیل، کوچ، کپتان، مینیجر سب تبدیل اور وہی چہرے گھوم گھوم کر سامنے آتے ہیں۔ اس استحصال کی وجہ بھی تو بیان ہونی چاہیے۔ اسے قومی کھیل کا درجہ دے کر جو سرکاری نوکری والا تاثر دیا جارہا ہے وہ صریحاً زیادتی ہے۔ کلبز کی بری حالت ہے ہر جگہ سیاست نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ کب تک چیمے، چٹھے اس ملک کو مسخ کرتے رہیں گے۔ رینکنگ میں بتدریج کمی کے سبب بیشتر ایونٹس میں خیراتی انٹری چل رہی ہے۔

حکومت کی ترجیہات میں کہیں بھی ہاکی کا نمایاں ذکر نہیں ہے۔ اگر کھلاڑی اور کھیل کی تکلیف ایک کھلاڑی بھی نہیں سمجھ سکتا تو بس اس کی مرقد پر انا للہ واناالیہ راجعون پڑھ لیں۔ کیوں کہ اس بات کے بعد کسی دوسری بات کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ عمران خان صاحب کو موجودہ نواز لیگی پریزیڈنٹ سیکرٹری اور ان کے کار ہائے نمایاں کے بارے میں بتایا نہیں گیا ہوگا۔ بلکہ آپ اسے ان کا ظرف سمجھ لیں یا چنوتی کہ آپ کا بوریا بستر کسی بھی وقت گول ہو سکتا ہے اور اس کے بعد نہ صرف آپ عہدے سے جائیں گے ساتھ ہی ساتھ سکینڈلز اور احتساب کا تحفہ بھی لے کے جائیں گے۔ سیاستدانوں کے ارجمند اگر اتنی اعلیٰ ظرفی رکھتے تو کیونکر ایسا کارِ ناپائیدار کرتے۔

لیکن آنے والے دنوں میں ایسا بدستور جاری نہیں رہے گا۔ کبھی نہ کبھی آپ کی رسی بھی کھینچ لی جائے گی پھر آپ ایک ہاتھ سے دامن بچائیں گے اور دوسرے ہاتھ سے وہ دھن جو آپ نے اکٹھا کیا۔ ہاکی میں اقربا پروری سب سے نمایاں مسئلہ ہے۔ عمران خان بھلے ہی موروثیت پسندی کے قائل نہ ہوں پھر بھی ممکنہ تبدیلی کی گنگا میں بہت سے چہرے ہاتھ دھونے کو بے تاب ہیں۔

ہاکی کھیلنے والوں میں بیشتر نچلے طبقے کے لوگ ہیں۔ کیونکہ یہ کارِ مشقت ہے جبکہ ایوانوں کی زینت بننے والوں کے مہذب بچے گیم آف جینٹل مین کو ترجیح دیتے ہیں اسی لیے اس قدر کسمپرسی کی حالت میں بھی گیم آف جنٹل مین ہی میڈیا کا پسندیدہ ہے۔ عشرت اندورزی انہی کا خاصہ سمجھی جاتی ہے۔ جو چیزیں سامنے آرہی ہیں وہ اصل کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔ یہ وہ واحد چیز ہے جس پر نہ تو کوئی چیف جسٹس از خود نوٹس لیتا ہے اور نہ ہی اقتدار کے ایوانوں میں کہیں اس کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔

فیڈریشن اور اس کے متعلقہ اداروں خاص طور پر سلیکشن کمیٹیوں کی بد عنوانی اور اقربا پروری اس کھیل کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔ چہرے اور بھیس بدل بدل کر دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے انیسویں صدی کے مفاد پرستوں کا ٹولہ جدید کھیل اور اس کے تقاضوں سے نا آشنا اپنی دکان داری چمکانے کے لیے من مرضی کے لوگوں کو نوازنے پہ لگا ہوا ہے۔ کوئی اربابِ اختیار کے کانوں پر لگا قفل توڑے اور پوچھے کہہ گر سنائی نہیں دیتا تو کیا دکھائی بھی نہیں دیتا؟

عامر ظہور سرگانہ

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔