1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. سِکھ، سیاست اور کرتار پور صاحب جی (پارٹ 2)

سِکھ، سیاست اور کرتار پور صاحب جی (پارٹ 2)

کرتار پور صاحب جغرافیائی لحاظ پاکستان کے لیے " کیش اِن ہینڈ " کی حیثیت رکھتا ہے۔ علاقے کی ٹوپوگرافی دیکھیں تو بارڈر سے کرتارپور گوردوراہ قریباً 4.5 کلومیٹر دوری پہ ہے۔ گوردوارہ کی آس پاس کی زمین قابلِ کاشت اور فصل آور ہے۔ زیادہ تر آبادی کا سلسلہ روزگار زراعت سے جڑا ہوا ہے. گردوراہ سے 500 میٹر مشرق کی جانب جائیں تو راستے میں بئیں نالہ آتا ہے جس کو چوڑائی 8-6 میٹر ہے۔ جو ایسے ہی بارڈر کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا آتا ہے۔ بارڈر اور بئیں نالہ کے بیچ راوی ہے۔

اب آتے ہیں اصل مدعے پر۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کامیابی کے بعد سکھ کمیونٹی سے کرتارپور صاحب بارڈر کھولنے کا عندیہ دیا جس پر فوج کی رضا مندی بھی کارفرما تھی۔ لیکن کچھ ایسے حالات پیدا کردیے گئے جن کے سبب معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ حکومت جہاں ریونیو کی مد میں عوام پر نئے ٹیکسز کا بوجھ ڈال کر مہنگائی کا طوفان بدتمیزی کھڑا کرتی جارہی ہے وہیں ایسے مواقع جو فی الفور ریاست کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے تھے ان پر کسی صاحبِ شعور کی نظر نہیں پڑی۔ بھارتی پنجاب سمیت پورے بھارت میں سکھ برادری 10 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر حکومت پاکستان سکھ کمیونٹی کو کرتارپور صاحب تک رسائی دیتی ہے تو لگ بھگ پچیس لاکھ لوگ سالانہ اس مقام پر اپنی حاضری دیں گے۔ دنیا میں ہر جگہ ایسے مقامات کی تعظیم کو برقرار رکھا جاتا ہے اور ان کو ریاست کی سفارتی اور معاشی ترقی میں بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے شاندار موقع ہے کہ وہ اس مقام کی اہمیت سے فائدہ اٹھائے۔

اس پر کام کرنے سے ریاست کو مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوں گے۔ اول تو سفارتی لحاظ سے سب سے زیادہ پاکستان کو فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ پنجاب کی عوام قدرتی طور پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے اور اس اقدام سے پاکستان کے لیے محبت میں بے پناہ اضافہ ہو گا جو کہ بھارت کے لیے سب سے پریشان کن بات ہے۔ دوسرا انٹرنیشنل فورم پر بھی سکھ برادری پاکستان کا بھرپور ساتھ دے گی جس سے یونیورسل امیج کی بہتری میں مدد ملے گی۔

اس کام کے بعد پاکستان کو خالصتان جیسے موضوع سے بھی چھٹکارا مل جائے گا کیونکہ پنجاب کی عوام اپنے طور اس موقف پر عمل پیرا ہو جائے گی۔ جس پر بھارت سفارتی طور پر زچ ہوسکتا ہے اور مسئلہ کشمیر کو لے کر کوئی سودمند حل نکل سکتا ہے۔

پاکستان سو فیصد اس عمل سے براہ راست نتائج حاصل کرسکتا ہے جس میں بھارتی فوج میں موجود سکھ فوجیوں میں اس مقام کی اہمیت کے پیشِ نظر ایک احساس پیدا ہوجائے گا جو لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کو حد درجہ کم کردے گا۔

دوسرا فائدہ اقتصادی اور معاشی ہے۔ پاکستان کی اکانومی کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے ایسے لاتعداد پروجیکٹ درکار ہیں۔ اس میں حکومت کو ریونیو کی مد میں ڈائریکٹ فائدہ پہنچے گا۔ پاکستانی مصنوعات کی تشہیر، ثقافتی تعلقات کو ایک نیا دوام حاصل ہو گا۔

ڈائریکٹ اور انڈائر یکٹ انوسٹمنٹ کے زبردست مواقع میسر آسکتے ہیں۔ سیز فائر خلاف ورزیوں کے سبب بارڈر کا یہ علاقہ پسماندہ ہے اس سے لوکل لوگوں کو بھی روز گار میسر آئے گا۔ اگلے ماہ 23 نومبر تک اگر حکومت بارڈر کھولنے کا فیصلہ کر لیتی ہے تو یہ تاریخ ساز فیصلہ مستقبل میں حکومت کے لیے اہم ثابت ہوگا۔ ایک میگا میکانزم بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی اس پروجیکٹ پر لاگت بہت کم اور آمدن زیادہ ہو سکتی ہے۔

اگر اس کی نگرانی وفاق کرتا ہے اور انویسٹمنٹ بھی تو اسکا ریونیو بھی وفاق کا حق بنتا ہے۔ اگر پنجاب کی صوبائی حکومت اس میں دلچسپی دکھاتی ہے تو اس کے پاس اتنے وافر وسائل ہیں کہ وہ اس منصوبے پر عمل درآمد کر سکے۔ منصوبے کی تفصیلات اگلے کالم میں تحریر کی جائیں گی۔

عامر ظہور سرگانہ

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔