1. ہوم/
  2. مزاحیات/
  3. اخلاق احمد خان/
  4. ماڈل گرل

ماڈل گرل

ماڈل گرل یہ ہے جو پانچ سال پہلے پچیس سال کی تھی اور اب تک مانشااللہ اتنی ہی ہے۔ اس کی عمر کا تعلق اس بات سے نہیں کہ کتنے سال پہلے پیدا ہوئی تھی بلکہ اس بات سے ہے کہ کتنے سال کی نظر آتی ہے۔ ہونے کے با وجود اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ شادی کے بعد بیوی کی ہنر مندی دیکھی جاتی ہے اور شوہر کی منصوبہ بندی۔ جہاں تک اس کی ازدواجی زندگی کا تعلق ہے پچاس فی صدی لوگ کہتے ہیں وہ نکاح یافتہ ہے پچاس فی صدی لوگ کہتے ہیں غیر نکاح یافتہ۔ یوں وہ ایسی کنواری ہے جس کی شادی ہوگئی ہو۔ میرا دوست کہتا ہے وہ چونکہ تین سال سے ’’امید ‘‘ سے ہے اس لئے امید یہی ہے کہ تین سال پہلے اس کی شادی ہوگئی ہوگی۔ ویسے ہم یہ بتادیں کہ کو ماڈل اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ماڈل ہائی اسکول میں پڑھتی تھی اور گرل اس لئے کہتے ہیں کہ وہ لڑکیوں کے ہسپتال میں پیدا ہوئی تھی۔

ٹی این راز عرف شعر کشمیر کے نزدیک عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں پر یکساں عبور رکھتی ہے اس لئے اس نے دولت سے محبت پیدا نہیں کی بلکہ محبت سے دولت پیدا کی۔ محبت ایسے کرتی ہے گویا محبت جتا رہی ہو، بعض مرتبہ گمان ہوتا ہے محبت لٹا رہی ہے۔ چونکہ اس کا دائرہ محبت (Circle of love) محدود ہوتے ہوئے بھی بہت وسیع ہے اس لئے زیادہ سے زیادہ لڑکوں کے بارے میں کم سے کم باتیں جانتی ہے۔ اگر کوئی خوب صورت لڑکا اسے نظر انداز کرتا ہے تو سمجھتی ہے اس کے ساتھ ’’زیادتی‘‘ کررہا ہے۔ ایک مرتبہ اس نے ایک محفل میں ایک کڑیل نوجوان کو دیکھا مگر نوجوان نے اس سے بات نہیں کی چنانچہ اس سے ناراض ہوگئی۔ اس بات کو ایک سال ہوگیا ہے اور اس عرصے میں اس اجنبی نوجوان سے کبھی سامنا نہیں ہوا مگر وہ ابھی تک اس سے ناراض ہے۔ اس کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب، کیسے اور کیوں ناراض ہوئی؟ بعض مرتبہ آپ کے خاموش رہنے پر ناراض ہوجائے گی بعض مرتبہ بولنے پر ، اس لئے لوگ اس کے سامنے خاموش رہتے ہیں نہ بولتے ہیں۔ ویسے روٹھی حسینہ کو منانے کے تین طریقے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ان میں سے ایک طریقہ بھی آج تک کسی کو معلوم نہ ہوسکا۔ سنتے ہیں لیلئ کو جب بھوک لگتی تھی تو مجنوں اس کے لئے صحرا سے گھاس لادیا کرتا تھا اور وہ راضی ہوجایا کرتی تھی۔

جب فلموں میں آئی تو اپنی خوب صورتی بھی ساتھ لائی۔ ویسے بھی پاکستان کی نوے فی صدی اداکارائیں سو فی صدی خوب صورت ہیں اور سو فی صدی سیاست داں نوے فی صدی سمجھ دار۔ اپنے کردار میں ڈوب کر اداکاری کرتی ہے اور بعض مرتبہ تو اتنی ڈوب جاتی ہے جیسے ڈوب مری ہو۔ اتنی جلدی جلدی اور تیز رفتاری سے ایکٹنگ کرتی ہے کہ تین گھنٹے کی فلم ایک گھنٹے میں ختم ہوجاتی ہے۔ بچپن سے اسے جلد بازی کی عادت ہے۔ دنیا کا سب سے پہلا کام کرنے میں بھی اس نے عجلت سے کام لیا اور نو ماہ کی بجائے سات ماہ میں اس دنیا میں تشریف لے آئی۔فلموں میں آنے کے بعد اگرچہ وہ حسب سابق کے فرائض بھی انجام دیتی رہی مگر اس نے گانا بھی شروع کردیا۔ یہ نیا آئٹم اسے بہت بھایا کیونکہ اس میں آج کل ریاض نہیں کرنا پڑتا۔ خود ریاض محمود نے گانا شروع کیا تو ریاض کبھی نہیں کیا۔ استاد امراؤ بندو خاں کے گانے ہماری سمجھ میں نہیں آتے تھے مگر جب ان کا انٹرویو پڑھا جس میں انہوں نے کہا کہ ہر تین منٹ کا گانا گانے سے پہلے تین گھنٹے ریاض کرتا ہوں تو پھر سمجھ میں آنے لگے۔ آجکل لوگ اپنی قوت برداشت بڑہانے کیلئے پاپ میوزک ’’سنتے ‘‘ ہیں اور ورزش سیکھنے کے لئے پاپ میوزک ’’دیکھتے‘‘ ہیں۔ قوالی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ بیٹھ کر ورزش کس طرح کی جاتی ہے۔ قوالوں کا حلق بہت مضبوط اور نا قابل تسخیر ہوتا ہے۔ گانا گاتے وقت سامعین کی جیبوں کو دیکھتی رہتی ہے اور سامعین اس کے لباس کو۔ وہ گانا سنانے کے لئے نہیں گاتی لباس دکھانے کے لئے گاتی ہے۔

ماڈل گرل سے پوچھا گیا آپ ان دنوں بے لباسی کے لباس کی طرف کیوں مائل ہیں؟ کہنے لگی میں نے تمام لباس پہن کر دیکھ لئے، کوئی لباس مطمئن نہیں کرسکا (مجھے نہیں میرے ناظرین کو) ۔ پہلے شلوار قمیض پہنتی تھی تو لوگ دقیانوسی کہتے۔ ساڑھی پہنی تو کہنے لگے بہت بھاری ہے، سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ میکسی پہنی تو بولے انگریزی فلموں کی نقل کرتی ہے۔ ایک پروگرام میں تنگ پتلون پہن لی تو آواز آئی ’’تنگ پتلون ہمارے جذبات کو بہت تنگ کررہی ہے‘‘ اب بتاؤ بے لباسی کے لباس کے سوا کون سا لباس بچا ہے؟

ماڈل گرل بہت دیر تک اور دور تک سوچتی ہے۔ دوسروں کا برا نہیں سوچتی بس اپنا بھلا سوچتی رہتی ہے۔ دوسروں کے حقوق کا اتنا خیال رکھتی ہے کہ اپنی کار ان گاڑیوں سے آگے نہیں بڑہاتی جو اس سے آگے جارہی ہوں اور اس سے آگے صرف پولیس کی گاڑی ہی جاسکتی ہے۔ وہ آلو چھولے بیچنے والوں سے انگریزی بولتی ہے مگر وہ اس کی انگریزی سمجھ جاتے ہیں کیونکہ اس میں آدھی اردو ہوتی ہے۔ انتہائی مہمان نواز ہے مگر ساتھ ساتھ عقل مند بھی اس لئے صرف ایسے مہمانوں کو چائے کی آفر کرتی ہے جن سے انکار کی امید ہو۔ اپنے حسن کا اتنا خیال رکھتی ہے جیسے میڈم اپنی آواز کا رکھتی تھیں۔بیوٹی پارلر یوں جاتی ہے جیسے دلہن میکے جارہی ہو۔ جب بھی وہ آئینے کے سامنے جاتی ہے آئینہ اس سے کہتا ہے مقابلہ حسن میں حصہ کیوں نہیں لیتیں؟ مگر اس کا بڑھتا ہوا حسن اس کو مقابلے سے باز رکھتا ہے۔ ہمیں یا دآیا ایک مرتبہ عالمی مقابلہ حسن میں ایک موٹی عورت بھی امیدوار تھی مگر جج صاحبان نے ایک دبلی پتلی حسینہ کو اوّل قرار دے دیا۔ تب موٹی عورت نے شکایت کی ’’میرا حسن اس سے سو پونڈ زیادہ ہے پھر بھی آپ نے اسے کامیاب قرار دے دیا‘‘

خوش گواریت پسند ہے اس لئے ماضی میں جو اچھے واقعات اس کی زندگی میں پیش آئے ہیں انہیں کو بار بار دہراتی رہتی ہے۔ اسی لئے لوگ کہتے ہیں وہ ’’حال‘‘ نہیں گزار رہی ’’ماضی‘‘ گزار رہی ہے۔ اتنی دولت اور شہرت کے باوجود اس کی زندگی تشنہ اور نا مکمل ہے۔ وہ اس ادھورے افسانے کی طرح ہے جو ختم ہونے کے لئے ایک خوب صورت موڑ کی تلاش میں ہو۔