1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. چھ نمبر

چھ نمبر

آپ نے کبھی نہ کبھی لُڈو گیم تو کھیلی ہوگی؟ ہم میں سے ہر ایک نے یہ گیم کھیلی ہے، جب موبائلز کا دور نہیں تھا تب وقت گزاری کے لئے کرکٹ، والی بال کے بعد کیرم یا لُڈو ہی بہترین مشغلہ ہوا کرتا تھا، خاص طور پہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے جب ہم رشتہ داروں کے گھر جایا کرتے تھے تب سب کزنز مل کر پیسے جمع کرتے اور لُڈو خرید لاتے تھے دوپہر میں کسی درخت کی چھاوں تلے بیٹھ کر کھیلا کرتے تھے، گیم کھیلتے ہوئے جو جیت جاتا اس پہ بے ایمانی کا الزام لگایا جاتا تھا، خیر ایسا آج بھی ہوتا ہے ہم میں سے کوئی ہم سے آگے نکل رہا ہو تو ہم اس پہ بے ایمانی کا الزام لگا کر دل کہ آگ ٹھنڈی کرتے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ وہ تمام تر خوشی کے ذرائع معدوم ہوگئے، ہم پریکٹیکل لائف میں آگئے بس غمِ روزگار یا محبت کے غموں نے ہمارے اندر کی تمام تر خوشیاں ہم سے لے لی ہیں اب اگر رشتہ داروں یا دوستوں کے درمیان بیٹھ بھی جائیں تو وجود تو وہیں رہ جاتا ہے مگر ہماری سوچیں کہیں دور سفر کر رہی ہوتی ہیں۔

اب تو ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ ہم اپنے موبائل پر ہزاروں میل دور بیٹھے دوست کے ساتھ آن لائن گیم کھیل سکتے اور نا صرف کھیل سکتے ہیں بلکہ ان سے گفتگو کرسکتے ہیں آواز یا ٹیکسٹ چیٹ، مجھے بھی فیس بک کے ایک پیارے دوست نے بتایا کہ لڈو انسٹال کرو کھیلتے ہیں، لڈو کھیلتےوقت میں نے ایک سبق سیکھا کہ لڈو کی گوٹی کی طرح ہم اگر اپنے گھر یعنی اپنی حد میں رہیں تو اردگرد بکھرے ہمارے دشمن ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

ادھر ہم نے ایک غلطی کی نہیں ادھر انہیں موقع مل جاتا ہے کیوں کہ وہ تو اسی تلاش میں ہوتے ہیں، ہماری ایک غلط چال ہماری پوری زندگی پہ اثر انداز ہوجاتی ہے، جو غلطی ہوجائے اس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا اور سب سے اہم سبق جو لُڈو نے دیا کہ ہمیشہ چھ نمبر کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے کبھی کبھی صرف ایک نمبر بھی ہمیں بچانے کے لئے کافی رہتا ہے یعنی کم دئیے پہ راضی رہنا بھی باعثِ سکون ہوسکتا ہے اور زیادہ کے حصول کا لالچ ہمیں ہمیشہ کے لئے بے سکون کردیتا ہے۔