1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. ایک نظر ادھربھی

ایک نظر ادھربھی

آپ ایسے مناظر صبح اور دوپہر کو روزانہ دیکھتے ہوں گے، ایک رکشہ جس پہ بمشکل چھ لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے، لیکن رکشہ ڈرائیور اس پہ دس بارہ بچے اور ان کے بیگز ٹھونس کر سڑکوں پہ دوڑائے پھرتے ہیں، اور حادثات کا شکار بھی ہوجاتے ہیں، والدین پیسے بچانے اور رکشہ ڈرائیور زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں بچوں کی جان کی پرواہ کئیے بغیر اوور لوڈ کرلیتا ہے، چھٹی کے وقت اکثر بچوں کو نیند آئی ہوتی ہے، رکشہ والا سکول سے بچے پورے کرکے بٹھا دیتا ہے اور بچے سوجاتے ہیں اور گر جاتے ہیں۔

یہ حادثات تو شائد ایک یا دو فیصد وقوع پذیر ہوتے ہیں مگر میں جس مسئلے کی جانب توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہم لوگ بچوں کو رکشہ ڈرائیور کے حوالے کرکے بے فکر ہوجاتے ہیں جبکہ رکشہ والا زیادہ سے زیادہ بچے لوڈ کرتا ہے اور چھوٹے بچوں کو اپنے آگے ٹنکی پہ بٹھا لیتا ہے، اور اپنے سے پیچھے والی سیٹ پر بھی بچے یا بچی کو بٹھا کر کہتا ہے مجھے مضبوطی سے پکڑ لو۔

بچوں کے ساتھ ہونے والے واقعات میں زیادہ تر رشتہ دار، محلہ دار، سکول کے چوکیدار یا آٹو رکشہ والے ملوث پائے جاتے ہیں، روزانہ بچےرکشہ یا ویگن والے کے ساتھ سکول کا سفر کرتے ہیں جس وجہ سے بچے ڈرائیور کے ساتھ بے تکلف ہوجاتے ہیں۔

ہمیں چاہیے یا تو اپنےبچوں کو خود سکول و کالج چھوڑ کر آئیں اگر ایسا نہیں کرسکتے تو رکشہ والے کو سختی سے منع کریں کہ وہ ضرورت سے زیادہ بچے نا بٹھائے اور نا ہی کسی بچے کو اپنے آگے یا پیچھے بٹھائے، اگر ایسا کرتے کسی رکشہ والے کو دیکھیں تو فوراً اسے سختی سے تنبیہہ کریں، ٹریفک پولیس کو بھی سختی سے نوٹس لینا چاییے۔

ضروری نہیں کہ ہر رکشہ یا ویگن والا غلط انسان ہوتا ہے مگر نیت بدلتے دیر نہیں لگتی، ہمیں اپنے بچوں کی خود حفاظت کرنی ہوگی، اپنی بیٹی اور بیٹے کو پاس بٹھا کر پیار سے سمجھائیں کہ شرم نا کریں بلکہ جسم کے کس حصہ پہ کوئی ہاتھ لگائے تو وہ ماں یا باپ کو ضرور بتائے۔

دن بدن بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات کو ہم سب نے مل کر روکنا ہوگا، والدین، اساتذہ اور علماء کرام کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سکول کے اسمبلی میں اور جمعہ کے خطبوں میں ہمیں عوام تک ان مسائل کے متعلق آگاہی پھیلانی ہوگی۔ جنت کی حوروں کے قصے چھوڑ کر ہمیں دنیا کے بھڑیوں کے خلاف بات کرنی ہوگی۔