1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. آئیں یوسفؑ پیمبر سے سیکھیں

آئیں یوسفؑ پیمبر سے سیکھیں

لاک ڈاون کی وجہ سے آج کل کسی قسم کی مصروفیات نہیں ہیں تو سوچا کیوں نا کوئی اسلامی فلم دیکھ لی جائے، کئی سال پہلے یوسفؑ پیمبر فلم دیکھی تھی اس وقت زیادہ سمجھ نہیں پایا تھا، فیصلہ کیا کہ دوبارہ دیکھتا ہوں، اس فلم کو دیکھ کر جو میں نے نتیجہ نکالا ہے وہ آپ سب کے سامنے رکھتا ہوں۔

دنیا میں جب بھی مرد کے حُسن کی بات آئی تو ہمیشہ حضرت یوسفؑ کی خوبصورتی کا ذکر کیا گیا، کوئی عاشق جب اپنے محبوب کا ذکر کرتا ہے تو اسے حُسنِ یوسفؑ سے تشبیح دیتا ہے، شاعروں نے اپنی نظم و غزل میں اکثر یوسفؑ کے حُسن کا تذکرہ کیا ہے، یعنی ہم نے سورہ یوسفؑ سے دو ہی چیزیں لی ہیں ایک حضرت یوسفؑ کا حُسن اور دوسرا ذلیخا کی بدنیتی اور پھر اس کا عشق، ہم نے حضرت یوسفؑ کا اخلاق، ان کی سیرت، انکی حکمت بھری باتیں اور معاشرے کے لئے قحط کے وقت بہترین تدبیریں کبھی سیکھی ہی نہیں، یوسف پیمبرؑ میں کاہنانِ معبد کے کردار کو بخوبی دکھایا گیا ہے یہ وہ گروہ تھا جنہوں نے لوگوں کو جھوٹے خداوں کے سامنے جھکا رکھا تھا، عوام پہ مابت کے خداوں کا ایک اٙن دیکھا خوف طاری کر رکھا تھا، لوگوں سے اناج، سونا اور نقدی اکھٹی کرتے تھے اور انکار کرنے والے کو دیوتاوں کے غضب کی خبر دیتے تھے، ایک طرح سے ان کاہنان نے لوگوں کے دماغ مذہب میں اتنے الجھا رکھے تھے کہ لوگ خداوں کے غضبناک ہونے سے ڈرتے تھے اور چپ چاپ کاہنان کی باتوں پہ عمل کرتے چلے جاتے، پھر جب حضرت یوسفؑ نے خدائے یکتا کی تبلیغ شروع کی اور ساتھ ہی انسانیت کی فلاح کے لئے مختلف اقدامات اٹھائے تو یہ کاہنان اپنی اجارہ داری کے خاتمے کے ڈر سے حضرت یوسفؑ کے خلاف سازشیں کرنے لگے، جھوٹے الزامات لگانے لگے، لیکن حضرت یوسفؑ کے اعلیٰ اخلاق اور سچائی نے ہزاروں سال پرانے مابت خانوں کے تابوت میں کیل ٹھونک دئیے لوگ ان نام نہاد خدا کے نماندوں کو چھوڑ کر براہ راست خدائے واحد کی عبادت کرنے لگے اور یوں مصر میں حضرت یوسفؑ نے ایک مثالی معاشرہ کی بنیاد رکھی۔

ہم نے بھی تو قرآن اور محمدؐ و آل محمدؑ کے ساتھ وہی کیا جو شاعروں نے حضرت یوسفؑ کے حُسن کے ساتھ کیا، ہم نے صرف محمدؐ و اہل بیتِ محمدؐ کے قصیدے پڑھے، نعرے لگائے، دیگیں پکائیں، آنسو بہائے اور بس، ہم نے قرآن کی صرف ان آیات کو رٹا لگایا جو ہمارے اپنے عقیدے سے مطابقت رکھتی تھیں اور مخالف فرقہ کو جھوٹا ثابت کرتی تھیں، ہم نے رسولؐ اور ان کی آلؑ کے وہی فرامین سینے سے لگائے جو ہمیں میٹھے لگے کڑوی احادیث ہم نے دوسروں کے کھاتے میں ڈال دیں، ہم نے سیرتِ نبیؐ و آلِ نبیؑ تو نہیں اپنائی بس ان کے فضائل و مصائب ہی یاد رکھے، ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ محمدِؐ مُصطفیٰ نے عرب کے غلیظ ماحول کو کیسے بدل کر ایک خوبصورت معاشرے کی شکل دی، علیؑ سے لیکر امام مہدیؑ تک ان سب آئمہ اطہارؑ نے انسانیت کی بقاء کے لئے کیا اقدامات کئیے؟ دنیا کو سائنس جیسے علم سے فائدہ دینے کے لئے جعفر صادقؑ نے جابر بن حیان، بوعلی سینا اور یعقوب الکندی جیسے شاگرد کیسے تیار کئیے، انسانیت کی تعمیر میں آلِ رسولؑ نے کون کون سے ایسے طریقے اپنائے کہ آج غیر مسلم ان کو اپنا کر ہم سے بہت آگے نکل گئے؟

ہمارے مدارس و مساجد اور منبر پہ بھی مصر کے کاہنان کی طرح کے لوگوں کا قبضہ ہے ہمیں چند قرآنی آیات اور چند روایات میں الجھا کر یہ لوگ اپنے پیٹ بھر رہے ہیں، ان مدارس و مساجد اور منبر نے آج تک انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی کام نہیں کیا سب نے قتل و غارت اور نفرت ہی سکھائی، ڈاکٹر علی شریعتی نے کہا تھا شیعت ایک شہادت کا مسلک تھا ہم نے ماتم کا مسلک بنا ڈالا میں کہتا ہوں دین اسلام انسانیت کا مذہب تھا ان مسجد مدرسہ منبر اور خانقاوں کے کاہنان نے اس مذہب کو استنجاء، غسلِ جنابت، مباشرت کے آداب اور جنت کی حوروں کا دین بنا ڈالا۔

معاشرے کی اصلاح اور تعمیر کے لئے ہمیں قرآن اور انبیاء کرام اور اہل بیتِ رسولؑ کی سیرت سے سیکھنا ہوگا ورنہ یہ کاہنان ہمیں یوں ہی آپس میں الجھائے رکھیں گے۔