1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. غلط فہمیاں

غلط فہمیاں

میرے آباو اجداد دریائے جہلم کے کنارے پر بہت ہی چھوٹے سے گاؤں سے تھے، شائد یہ ستر اسی سال قبل کی بات ہو گی، اس گاؤں میں بمشکل پچاس ساٹھ گھر ہوں گے، اب بھی وہ گاؤں موجود ہے، اور تب سے لے کر آج سے چند سال پہلے تک اس گاؤں میں بجلی کی سہولت نہیں تھی، اب تک وہاں زیادہ گھر کچے ہیں، ہم بچپن میں اپنی نانی اور نانا کے ساتھ ان کے آبائی گاؤں جایا کرتے تھے، ان مٹی کے گھروں کے در و دیوار سے ایک من بھاؤنی خوشبو آیا کرتی تھی۔

ان گھروں میں بہت سکون تھا، ہم نانی سے پوچھتے تھے کہ یہ لوگ پکے گھر کیوں نہیں بناتے؟ تو وہ بتاتی تھیں کہ ہر سال سیلاب آتا ہے چاہے پکے یا کچے گھر ہوں گِر جاتے ہیں تو ہم کچے گھر ہی بناتے ہیں کیوں کہ یہ خود تعمیر کئیے جا سکتے ہیں اور زیادہ پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ تو ہم نانی سے کہتے تھے تو ہر سال سیلاب آتا ہے تو یہ لوگ گاؤں چھوڑ کر شہر کیوں نہیں چلے جاتے؟

تو وہ جواب دیتی تھیں اپنے وطن کی مٹی کو چھوڑ جانا بے وفائی ہوتی ہے، ہم سب چاہتے ہیں کہ اپنے وطن پر جئیں اور مریں اور اسی مٹی میں جا سویں۔ ان کچے گھروں کی ایک خاص بات یہ ہوتی تھی کہ گرمیوں میں کمرے ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم ہوتے تھے، یہ گھر زیادہ بڑے نہیں ہوتے تھے، بس دو کچے کمرے، اس کی کچی چار دیواری، اور دروازہ، ایک نلکا اور اس کے اردگرد چھوٹی سی دیوار، وہاں دروازے کی جگہ پردہ لٹکا دیا جاتا تھا۔

صحن میں ایک چھاؤں دار درخت اور درخت کے نیچے پانی کے گھڑے رکھنے کے لئے لکڑی کا ایک سٹینڈ جسے ہم گھڑونجی کہتے تھے، ان گھروں میں الگ کچن نہیں ہوتا تھا، سونے والے کمرے کے بالکل باہر چھوٹی سی دیوار بنا دی جاتی اسے مٹی سے لیپا جاتا تھا اور اسی میں مٹی کا چولہا رکھا ہوتا اسے چولہانہ کہا جاتا تھا۔ آٹا مٹی کے برتن میں گوندھا جاتا اور سالن مٹی کی ہانڈی میں پکایا جاتا تھا، جہاں درخت کے نیچے چھاؤں میں پانی کے گھڑے رکھے جاتے وہیں ایک مٹکا لسی کا بھی ہوتا تھا۔ اور گھر کے ایک کونے میں تندوری لگی ہوتی تھی جس میں مائیں تازہ روٹیاں لگاتی تھیں۔

اس چھوٹے سے گاؤں کا آپس میں اتفاق پورے علاقہ میں مشہور تھا، پورے گاؤں کی بیٹیاں سب کی سانجھی بیٹیاں سمجھی جاتی تھیں، کسی کی بیٹی کی شادی پر پورا گاؤں اپنی بیٹی کی شادی سمجھتا تھا، کسی کے گھر گندم ختم ہو جاتی تو پورا گاؤں مل کر اتنی گندم دے دیتا کہ سال بھر پھر ضرورت نہ پڑتی تھی، کسی کے گھر موت ہو جاتی تو پورا گاؤں مہمانوں کے کھانے پینے کا انتظام کرتا اور مہمانوں کو گاؤں والے اپنے گھروں میں لے جاتے اور ان کے سونے کے لئے نئے بستر بچھاتے تھے اور صبح ناشتہ بھی پیش کرتے تھے۔

اس مثالی گاؤں میں ایک دفعہ باہر سے کوئی خاندان آ کر آباد ہوا، ان کی کچھ عورتیں ایسی تھیں جو چھوٹی سی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتیں، چغلی کرتیں اور غیبت بھی خوب کیا کرتی تھیں، آہستہ آہستہ اس گاؤں میں ناچاقیاں بڑھنا شروع ہو گئیں اور ایک دوسرے کو گلے لگانے والوں کے ہاتھ گریبانوں تک آن پہنچے، اس نئے آنے والے خاندان نے ایسی غلط فہمیاں پیدا کیں کہ اس گاؤں سے لوگ ہجرت کر کے شہر جانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں ویران ہونے لگا، وہ محبتیں نفرتوں میں بدل گئیں، لسی اور دیسی گھی ایسے ہی پڑے رہے مگر آپس میں تقسیم کرنے والے چلے گئے۔

بہت عرصہ بعد کسی شادی پر اس گاؤں کے لوگ جمع ہوئے وہاں پرانی رنجشوں پر بحث ہونے لگی تو نتیجہ یہ نکلا کہ جو ان سب کے کان بھرے گئے تھے وہ اس ایک خاندان کی کارستانیاں تھیں، وہ صرف غلط فہمیاں تھیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا، پر اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی، نہ وہ گاؤں دوبارہ آباد ہوا نہ وہ لوگ واپس آئے۔

ہمارے معاشرے میں یہ بیماری عام ہے کہ ہم بنا تحقیق کے بات آگے پہنچا دیتے ہیں، کسی کی بھی کردار کشی کرنے میں دیر نہیں لگاتے، آدھی بات سنتے ہیں باقی بات خود سے بنا لیتے ہیں اور پھر دوسروں کو بھی بتاتے ہیں تاکہ اس انسان کی عزت خراب کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے، بعض اوقات ہم حسد کے ماروں کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں۔

آدھا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے، قرآن کریم میں بھی ایک آیت کا مفہوم یہی ہے کہ جب آپ کے پاس کوئی فاسق خبر لے آئے تو پہلے اس کی تحقیق کر لیا کرو۔ کسی سے بھی نفرت کرنے سے پہلے یا کسی کے بارے حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے ہمیں اس انسان کے بارے پھیلائی گئی باتوں کی خوب تحقیق کر لینی چاہیے ورنہ بعد میں صرف پچھتاوے ہی ہاتھ آتے ہیں۔