1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. ہمیں اپنے پاکستان کو شام نہیں بنانا

ہمیں اپنے پاکستان کو شام نہیں بنانا

دمشق سے حلب تقریباً تین سو ساٹھ کلومیٹر کے فاصلہ پہ ہے، حلب سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلہ پر ترکی کا بارڈر ہے، ہم صبح ساڑھے پانچ بجے دمشق (سیدہ زینبؑ) سے حلب کی زیارات کے لئے نکلے، دمشق سے حلب کا یہ تین سو ساٹھ کلو میٹر کا راستہ بہت ہی خوبصورت ہے، ان علاقوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ شام کبھی کتنا خوبصورت ہوا کرتا تھا، ہر چند کلومیٹر کے بعد کوئی نا کوئی چھوٹا سا گاوں یا پھر شہر آباد ہے۔

موسم انتہائی خوشگوار ہے مگر دل یہ ساری خوبصورتی دیکھ کر پھر بھی افسردہ رہا، کیوں کہ تین سو ساٹھ کلومیٹر میں سڑک کے دونوں اطراف میں آباد گاوں قصبے اور شہر ملیا میٹ ہوچکے ہیں، خوبصورت گھر بنگلے اور کوٹھیاں تو موجود ہیں مگر آدھے سے زیادہ زمین بوس ہوچکے ہیں، انسان وہاں کہیں دکھائی نہیں دیتے، ہر طرف گولیوں کے نشان، راکٹ لانچر کی تباہیاں اور میزائیلوں نے وہاں زندگی کی رونقیں برباد کردی ہیں، جس زمین پر زیتون اور میوہ جات کے باغات ہوا کرتے تھے وہاں اب ان زمینوں کے مالکان کی اپنے بچوں سمیت قبریں بن چکی ہیں اور زیادہ تر کو تو قبر بھی نصیب نہیں ہوئی، ہر طرف موت رقص کرتی نظر آئی، اکثریت ماری گئی جو بچ گئے وہ وہاں سے ہجرت کرکے یورپ جانے کی کوشش میں سمندر کی نذر ہوگئے، اس طویل سفر میں انسان بہت کم نظر آئے، ایک خوف ایک وحشت اور بربریت ہی نظر آئی۔

اب وہاں جو زندہ ہیں انکو بھوک غربت اور بے روزگاری مار رہی ہے، ائیر پورٹ پہ اتنی زیادہ رشوت کہ ہر قدم پہ ائیر پورٹ کا عملہ ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہے، بلا جھجھک مانگ لیتے ہیں، آپ سوچئیے ائیر پورٹ پہ یہ حال ہے تو باقی عوام کس حالت میں ہوگی؟ دمشق میں جب ہم گاڑی سے اتر کر نماز یا زیارت کے لئے جاتے ہر طرف سے خوبصورت اور نیلی آنکھوں والے چھوٹے چھوٹے بچے آپ سے صرف ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ "کیا ہمیں ایک روٹی لے کر دے سکتے ہو؟"

یہی شام ہی تھا جہاں دنیا بھر سے لوگ سیر و تفریح کے لئے آیا کرتے تھے، مہنگی ترین گاڑیوں کی اسمبلنگ یہیں ہوتی تھی، زیتون اور میوہ جات کی ایکسپورٹ اسی ملک سے ہوتی تھی ہر طرف زندگی تھی ہریالی تھی رونقیں تھیں مگر اب یہاں سوائے بھوک کے کچھ نہیں۔ چوبیس گھنٹے میں صرف دو گھنٹے بجلی آتی ہے، پٹرول سات سو روپے لیٹر، تنخواہیں اتنی کم کہ گزارہ ناممکن۔

یہ سارے حالات دیکھتے ہوئے رہ رہ کر مجھے میرے اپنے وطن کا خیال آتا رہا کیوں کہ میرے ملک میں بھی آہستہ آہستہ وہی حالات بنائے جارہے ہیں جو شام کی خانہ جنگی سے پہلے بنائے گئے تھے، عوام کو پہلے حکومت کے خلاف کیا گیا پھر فوج کے لئے دل میں نفرت بھری گئی اور آخر پہ فرقہ ورایت کے زہر کا انجیکشن دے دیا گیا جس کا فائدہ دشمن نے خوب اٹھایا اور داعش جیسا بھیڑیا شام میں داخل کردیا جس نے پھر وہ تباہی اور قتل عام کیا جس کا ازالہ شائد شام والے کبھی نہ کرپائیں۔

میرا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے مگر بطور ایک پاکستانی مجھے اپنے ملک میں پیدا ہونے والے حالات پہ انتہائی دکھ ہوتا ہے، ہر سیاسی لیڈر کا فالور صرف اپنے سیاسی قائد کو سچا ثابت کرنے اور مخالف کو جھوٹا بنانے کی کوشش میں ہے، ہر سیاسی کارندہ اپنی ہی فوج کے لئے نفرت دکھا رہا ہے، سارا دن سوشل میڈیا پہ مخالف سیاسی جماعت کے لئے جگت بازی اور فضول بکواسات پوسٹ ہوتے رہتے ہیں، حالیہ مظاہروں میں ہونے والی تباہی پہ افسوس کسی کو نہیں صرف سیاست کارڈ کھیلا جارہا ہے، جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب کو ملکر پہلے اپنے وطن کا سوچنا چاہیے تھا، سیاسی لیڈر اور ان کے فالورز کو سب اختلافات بھلا کر ٹوٹتے ہوئے وطن کی بھلائی کا سوچنا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے سب کو کرسی چاہیے سب کو اپنی ہی سیاسی جماعت کی حکومت چاہیے، خدانخواستہ یہی حال رہا تو ہمارا حال بھی شام والوں کی طرح ہی ہوگا آج جو سارا دن سوشل میڈیا پہ نفرت پھیلاتے رہتے ہیں انہی کے لیڈر خود ملک سے فرار ہوجائیں گے اور یہ لوگ ایک ایک روٹی کو ترستے نظر آئیں گے۔

آپ خود سوچیں ان سیاسی جلاو گھیراو میں آپ کو کسی سیاسی لیڈر کی اولاد میں سے کوئی نظر آتا ہے؟ صرف غریب عوام ہی کیوں ڈنڈے کھاتی ہے؟ یعنی بھوکی بھی عوام مرے اور احتجاج میں عوام ہی قتل ہو؟ تو قصور کس کا ہے؟ یہ قصور ہمارا اپنا ہی ہے جو ان سیاسی لٹیروں پہ اپنی جان نچھاور کرنے پہ تُلے ہوتے ہیں اور پھر یہی لیڈر آپ کے جنازوں میں بھی شامل تک نہیں ہوتے۔

اپنے سیاسی لیڈر کی وکالت کرنے کی بجائے صرف اپنے ملک کو بچانے کی کمپین چلانی چاہیے، ملک کی حفاظت کا سوچنا چاہیے وطن سے محبت کا درس دینا چاہیے نہ کہ وطن کو جلانے پہ خوش ہونا چاہیے کیوں کہ یہ ملک ہے تو آپ ہیں، آپ کی عزتیں محفوظ ہیں، آپ کو روٹی مل رہی ہے، آپ کے گھر آباد ہیں اللہ نہ کرے یہ وطن نہ رہا تو آپ بھی کہیں کے نہیں رہیں گے۔

ہمیں اپنے پاکستان کو شام نہیں بنانا۔