1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. اِک چُپ تے سو سُکھ

اِک چُپ تے سو سُکھ

میں جب اپنے بزرگوں کو دیکھتا تھا کہ وہ کتنے حوصلہ والے ہوا کرتے تھے، تحمل مزاجی اور قوتِ برداشت دیکھ کر سوال کرتا تھا کہ آپ کیسے معاشرے کی تلخیاں، رشتہ داروں کی زیادتیاں اور سخت حالات کو ہنس کر برداشت کر جاتے ہیں؟ آپ کیسے لوگوں کی چبھتی ہوئی باتیں سن کر صرف مسکرا دیتے ہیں؟ میں ان سے سوال کرتا تھا کہ کیا ہم کمزور ہیں؟ کیا ہم بزدل ہیں؟ ہم کیوں منہ توڑ جواب نہیں دے سکتے؟ آخر ہمیں اس معاشرے میں رہنا ہے ہم یوں چُپ کر کے تو نہیں بیٹھ سکتے تو وہ جواب دیتے تھے۔

"اِک چُپ تے سو سُکھ"

پھر وہ کہتے تھے پُتر وقت کے ساتھ ساتھ تمہاری طبیعت میں بھی یہ ٹھہراؤ آ جائے گا ایک دن تم بھی کہو گے کہ خاموشی بہترین عمل ہے۔

وقت گزرتا گیا، بزرگ آہستہ آہستہ گزرتے گئے، جب زندگی کی تمام تر ذمہ داریاں کندھوں پہ آن پڑیں تو پھر زندگی کی حقیقت بھی معلوم ہونا شروع ہوگئی، مگر پھر بھی جلدی غصہ آ جانا، جلد بازی، غیر تحمل مزاجی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپے سے باہر ہونے کی عادت ختم نہیں ہو رہی تھی، حالانکہ اپنی ان عادات کی وجہ سے کئی بار بڑے نقصان بھی اٹھائے مگر پھر بھی وہی غصیلی طبیعت ہی رہی، اگر کوئی ایک کرتا تو اسے دس سنا دیتا تھا، کسی ایک طرف سے ذاتی حملہ ہوتا تو جواباً اسے جب تک گھر تک چھوڑ کے نہ آتا سکون نہیں آتا تھا، جب تک بدلہ نہ لے لیتا تب تک رات بھر سو نہ پاتا تھا۔

زندگی میں کچھ ایسے واقعات یا حادثات بھی رونما ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ہماری ذات میں مثبت تبدیلیاں آنے لگتی ہیں، حالانکہ وہ حادثات انتہائی کرب ناک ہوتے ہیں، تکلیف دینے والے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑتے مگر ہم ان تکالیف سے سکون پا رہے ہوتے ہیں، کبھی کبھی یہ حادثات اپنے گناہوں کا کفارہ بھی لگتے ہیں، گزشتہ دو سالوں میں زندگی پہلے سے زیادہ اذیت ناک رہی۔

جن کی خاطر ہم نے ساری دنیا کو ایک طرف کر دیا تھا انہوں نے بدلے میں اذیتیں اور تکالیف دیں، عزت بھی خراب کرنے کی کوشش کی، پھر ان کے ساتھ وہ بھی مل گئے جو کبھی اچھے دوست سمجھتا تھا، شروع شروع میں میرے اندر وہی بچپن والی ضد آنا شروع ہوئی، بدلے کی آگ بھی بھڑکنے لگی، حالانکہ بھرپور بدلہ لے سکتا تھا، میرے اختیار میں بہت کچھ تھا مگر میں نے بتایا ناں کچھ حادثات ہماری زندگی میں مثبت تبدیلیاں لے آتے ہیں، میں نے دل و دماغ کو مصروف رکھنے کے لئے اپنا دھیان مطالعہ اور کاروبار کی طرف رکھ چھوڑا۔

ایک دن میں نے امام علیؑ کا قول پڑھا "السکوت احسن من البیان" یعنی خاموشی کلام سے بہتر ہے اور پھر میں نے باب العلم کے اس فرمان عالی شان کو پلے باندھ لیا، اب کوئی جو مرضی کہے، مجھے بزدل سمجھے، یا جو دل آئے سمجھے میں نے خود کو بدل لیا ہے، میرے سامنے بھی اگر کوئی بداخلاقی یا بدلحاظی کر جائے میرا جواب صرف ایک مسکراہٹ ہوتا ہے، مجھے اب بھی دوست بتاتے ہیں کہ فلاں جگہ آپ کا ایسا ذکر ہو رہا تھا تو مجھے بہت ہنسی آتی ہے۔

آیا کہ لوگوں کے پاس اب بھی اتنا فضول وقت ہے کہ وہ دوسروں کو ڈسکس کرتے رہتے ہیں یعنی انہیں اس دنیا میں اور کوئی کام نہیں؟ اب جب کہ مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں رہتی تو مجھے اپنے بزرگوں کی کہی باتیں یاد آتی ہیں اور قلبی سکون محسوس ہوتا ہے اور انکا ایک ہی جملہ کانوں میں گونجتا سنائی دیتا ہے۔

"اِک چُپ تے سو سُکھ"

یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہی تھا کہ ہم سب زندگی میں بہت سے امتحانات سے گزر رہے ہوتے ہیں اگر قلبی سکون چاہتے ہیں تو خاموشی کی قینچی سے اپنی زبان کو کاٹ لیں پھر سکون ہی سکون محسوس کریں گے بڑی سے بڑی مصیبت پھر بڑی نہیں لگے گی۔

خاموشی یعنی صبر۔