1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. میلاد فاطمہؑ

میلاد فاطمہؑ

میں نے بہت سے صاحبِ اولاد دوستوں سے ایک ہی سوال کیا کہ آپ کو اپنی اولاد میں سے زیادہ پیارا کون ہے؟ سب کا ایک ہی جواب تھا"بیٹی"۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا نے باپ کے سینے کا سکون بیٹی میں رکھا ہے۔ باپ طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد گھر واپس آئے اور آتے ہی بیٹی کا چہرہ دیکھ لے ساری تھکاوٹ اتر جاتی ہے۔ میں نے کئی ایسے باپ بھی دیکھے جو مالی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں مگر بیٹی کی ہر خواہش واجب سمجھ کر پوری کرتے ہیں۔ باپ کے ساتھ بیٹی کی ایسی محبت بھلا کیوں نہ ہو آخر اس کے پسِ پردہ اس باپ سے نسبت ہے جو خود تو رحمت للعالمینؐ ہیں مگر ان کی بیٹی ان کے لئے بھی رحمت ہیں۔ اس نسبت کی برکت سے آج دنیا بھر کے بیٹیاں اپنے باپ کی زینت بن چکی ہیں۔

بیس جمادی الثانی وہ بابرکت دن ہے جب رحمتِ دوجہاں ؐ کے گھر رحمت کا نزول ہوا۔ یہ وہ دن تھا جب اللہ نے آقا کریمؐ کو کوثر یعنی فاطمہؑ عطاء کرکے ان کے دشمنوں کو ہمیشہ کے لئے ابتر کردیا۔ مثلِ قرآن جب سرکارِ دوجہاں ؐ کے ہاتھوں پہ جنت کا نور رکھا تو کریم آقاؐ نے نام رکھا فاطمہؑ۔ پوچھا گیا فاطمہؑ نام کیوں رکھا تو فرمایا میری اس بیٹی اور اس کے محبین کو خدا نے جہنم کی آگ سے دور کردیاہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں رسولِ اکرمؐ جب معراج پہ گئے تو جبرائیل نے جنت میں ایک میوہ پیش کیا جو بہت لذید اور خوشبو دار تھا۔ وہ کھانے کے بعد فاطمہؑ جنت سے منتقل ہوکر میرے صلب میں آئیں اور یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی جنت کی خوشبو محسوس کرنا چاہتے اپنی بیٹی کو پاس بلا کر سونگھتے اور فرماتے مجھے اپنی بیٹی میں سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔ سیدہ فاطمہؑ کی ابتدائی تربیت جنابِ خدیجہؑ کے بعد جنابِ فاطمہ بنت اسد نے کی۔ اسی لئے حضرت خدیجہؑ کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہؑ فاطمہ بنت اسدؑ کو ماں پکارا کرتی تھیں۔

سیدہ النساء العالمین کو آقا کریمؐ نے کئی القابات سے نوازا، آپ چال ڈھال کردار میں ہوبہو اپنے بابا رسولِ اکرمؐ جیسی تھیں اسی لئے ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ جو بیٹھنے اٹھنے چلنے پھرنے، حسن و خلق اور گفتگو میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کے زیادہ مشابہ ہو۔ ایک اور جگہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے سیدہ فاطمہؑ سے بڑھ کر کسی کوفصیح نہیں دیکھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ وہ سید عالمؐ کی بیٹی تھیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں بے شک سیدہ فاطمہؑ پاکدامن ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اولادپر جہنم کی آگ حرام کردی ہے۔

سیدہ فاطمہؑ کا ایک لقب زاہدہ بھی ہے آپؑ زہد و عبادات میں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ آپ کا معمول تھا کہ آپ کھانا پکانے کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت جاری رکھتیں۔ حضور سرور کائناتؐ جب نماز فجر کے واسطے تشریف لاتے تو راستہ میں سیدہ کے گھر سے گزرتے تو سیدہ کی چکی چلنے کی آواز سنتے تو نہایت درد محبت کے ساتھ فرماتے: اے الہٰ العالمین! میری فاطمہؑ کو ریاضت و قناعت کی جزائے خیر عطا فرما۔ امام حسنؑ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں نے اپنی مادرِ گرامی سیدہ خاتونِ جنت کو شام سے صبح تک عبادت و ریاضت اور خدا کے حضور گریہ زاری نہایت عاجزی سے دعا و التجا کرتے دیکھا میں نے دیکھا کہ اکثر اپنی دعائیں رسول کریمؐ کے حق میں فرمایا کرتیں۔

حضرت ام ایمن فرماتی ہیں کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں دوپہر کے وقت جب شدید گرمی پڑ رہی تھی میں سیدہ فاطمہؑ کے گھر پر حاضر ہوئی اور دروازہ بند تھا اور چکی کے چلنے کی آواز آرہی ہے میں نے جھانک کر دیکھا کہ سیدہ ؑتو چکی کے پاس زمین پر سو رہی تھیں اور چکی خود بخود چل رہی تھی اور ساتھ ہی حسنین کریمینؑ کا گہوارہ خود بخود ہل رہا تھا یہ دیکھ کر میں نہایت حیران و متعجب ہوئی اور اسی وقت حضور پاکؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر تمام ماجرا بیان کیا تو آپ ﷺنے فرمایا: اس شدت کی گرمی میں فاطمہؑ روزہ سے ہے اللہ تعالیٰ نے فاطمہؑ پر نیند غالب کردی تاکہ اسے گرمی اور تنگی محسوس نہ ہو اور ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ فاطمہ بنت رسول ﷺکے کام کو سر انجام دیں۔

کل سے سوچ رہا ہوں کہ جگر گوشہِ رسولؐ کا یومِ ولادت ہے کیا لکھوں؟ کتنا لکھوں؟ کب تک لکھوں؟ اور کس حد تک لکھوں مگر یہ سوچ کر ہمت ہار جاتا تھا کہ آخر سیدہ کائناتؑ کی شان ہم بھلا کیا لکھ سکتے ہیں؟ یہ اللہ جانے اور اللہ کا رسولؐ۔ایک ہی شعر بار بار ذہن میں آیا کہ۔۔

پوچھا جو ایک فقیرسے رُتبہ بتولؑ کا

سر کو جھکا کے کہا اللہ نہیں ہیں ہم

آپ سب اہل ایمان کو سیدہ فاطمہؑ بنت رسول اللہ ﷺکی ولادت بہت مبارک ہو۔