1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. مومنِ قُریشؑ (6)

مومنِ قُریشؑ (6)

سعودی عرب کا جنوبی علاقہ پہاڑی اور سر سبز ہے ان میں ابھاء اور الباحہ شہر خوبصورتی کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں۔ دورانِ ملازمت جب میری رہائش طائف میں تھی تو ہم کام کرنے کے لئے طائف سے الباحہ کی طرف جایا کرتے تھے، کام سے واپسی پہ اپنے ایک بنگالی ساتھی کے ساتھ چائے پینے کے لئے ایک چھوٹے سے گاوں شوحطہ میں رک جایا کرتے تھے۔ اس گاوں میں بہت ہی زیادہ سکون محسوس ہوتا تھا۔ ویسے تو طائف کے علاقہ میں ہلکی ہلکی بارش معمول کی بات ہے لیکن اس شوحطہ گاوں میں ایک عجیب ہی روحانیت اور سکون محسوس ہوتا تھا، سر سبز و شاداب پہاڑیوں پہ بنے چھوٹے چھوٹے گھر بہت ہی خوبصورت لگتے۔ ایک دن میں نے چائے پیتے ہوئے بنگالی ساتھی سے کہا کہ اس گاوں میں جب بھی آتا ہوں دل باغ باغ ہوجاتا ہے، یہ سنتے ہی ہوٹل کے انڈین مالک نے کہا سکون بھلا کیوں نا ہو یہ اس گاوں میں ہمارے آقاؐ جو رہے ہیں، ان وادیوں میں ہمارے نبی مکرمؐ بکریاں چرایا کرتے تھے اور وہ سامنے جو سڑک ہے اس پہ بی بی حلیمہ سعدیہؓ کا گھر اب بھی باقی ہے۔ ہم دونوں دوست جلدی سے وضو کرکے اس گھر کی زیارت کو چلے گئے، ایک عجیب سکون، روحانیت تھی، پھر ہمارا معمول بن گیا جب بھی اس گاوں سے گزرتے چند لمحات اس گھر پہ ضرور گزارتے۔

بچپن سے ہی ہم بی بی حلیمہ سعدیہؓ کا ذکر نعتوں میں اور تقاریر میں علماء کرام سے سنتے آرہے ہیں، سچ تو یہی ہے کہ جناب حلیمہؓ جیسی قسمت کسی کی نہیں۔ کائینات کی رحمتؐ کو جنہوں نے ماں بن کر پالا ہو، جن کے نصیب میں پاک محمدؐ کی خدمت ہو، جن کا دودھ نبیوں کے سلطانؐ نے پیا ہو، جن کے گھر سرکار مصطفیٰؐ کے قدمین لگے ہوں ان سے بڑا قسمت کا سکندر کون ہوسکتا ہے۔ بی بی حلیمہؓ کا تعلق بنو سعد قبیلہ سے تھا۔ جب بنو سعد قبیلہ نے اسلام قبول کیا تو آپؓ بھی اپنی بیٹی کے ساتھ مدینہ تشریف لائیں اور آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا، آپؓ کو آتا دیکھ کر آقا کریمؐ کھڑے ہوگئے اور بہت عزت و احترام دیا اور رخصت کرتے وقت تحائف سے نوازا۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی یے کہ حضرت حلیمہؓ جب آپؐ کی پرورش کر رہی تھیں تب وہ دین اسلام پہ نا تھیں، بلکہ بعد میں مدینہ منورہ آکر اسلام قبول کیا۔

امیر المومنین امام علیؑ نے فرمایا خدا کی قسم! میرے باپ ابوطالب اور میرے دادا عبدالمطلب، ہاشم اور عبدمناف نے کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی، آپؑ سے پوچھا گیا کہ پھر یہ چاروں کس کی عبادت کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا:- وہ کعبہ کی طرف منہ کرکے دین ابراہیم کے مطابق نماز ادا کرتے تھے۔

ابو طفیل عامر بن واثلہ سے روایت ہے کہ امام علیؑ نے فرمایا جب میرے والد کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اکرمؐ ان کے پہلو میں تشریف فرما ہوئے تب آپؐ نے مجھے ان کی شفاعت کی خبر دی جو میرے لئے دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے زیادہ قیمتی ہے۔

امام علیؑ سے پوچھا گیا کہ رسولِ اکرمؐ سے پہلے زمانے کا وصی کون تھا تو آپؑ نے فرمایا میرا باپ۔

امام زین العابدینؑ سے سوال کیا گیا کہ کیا ابوطالبؑ ایمان لائے تھے یا نہیں؟ آپؑ نے فرمایا ہاں وہ ایمان لائے تھے، کہا گیا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کافر تھے، امامؑ نے فرمایا بڑی عجیب بات ہے، کیا ایسا کہنے سے ان کا مقصد ابو طالبؑ یا رسولِ اکرمؐ پہ طعنہ زنی کرنا ہے؟ حالانکہ خدائے تعالیٰ نے ایک مومنہ عورت کو کافر مرد کے نکاح میں رہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ بات قرآن مجید کی ایک سے زیادہ آیات میں بیان فرمائی ہے۔ پھر کسی کو اس بات میں شک نہیں کہ امام علیؑ کی والدہ فاطمہ بنت اسدؓ سب سے پہلے ایمان لانے والی عورتوں میں سے تھیں۔

امام باقرؑ سے ایمانِ ابوطالبؑ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا خدا کی قسم وہ جھوٹ بولتے ہیں اگر ابوطالبؑ کا ایمان ترازو کے ایک پلڑے میں اور ان تمام لوگوں کا ایمان دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو ابوطالبؑ کے ایمان کا وزن زیادہ ہوگا۔

امام جعفر صادقؑ نے ارشاد فرمایا کہ ابوطالبؑ کے ایمان کی مثال اصحابِ کہف کے ایمان کی سی ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ جن بی بی نے آپؐ کو دودھ پلایا اور بچپن کے چند سال پالا ان بی بیؓ کے ایمان پہ کسی مسلمان نے کبھی بات نہیں کی، بلکہ ہر محفل نعت میں بی بی حلیمہؓ کا ذکر خیر کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ہر مکتبہ فکر میں حضرت حلیمہؓ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس عزت و توقیر کی وجہ صرف یہی ہے کہ انہوں نے ہماری نبی محترمؐ کی خدمت کی ہے۔ اللہ ہی جانے مسلمانوں کو مومنِ قریش حضرت ابوطالبؑ سے ایسی کیا دشمنی ہے کہ ہزاروں ثبوت ہونے کے باوجود ان کے ایمان پہ ایمان نہیں رکھتے۔ بی بی حلیمہؓ نے تو صرف آپؐ کو دودھ پلایا اور چند سال خدمت کی جنابِ ابوطالبؑ نے نا صرف پالا بلکہ ہرمقام پہ آپؐ کا ساتھ دیا، دشمنوں سے حفاظت کی، آپؐ کی عزت و عظمت، مقام و مرتبہ اہل عرب کو بتایا ہی نہیں بلکہ منوایا، آپؐ کی شان میں نعتیں کہیں، آپؐ کو اپنا بیٹا کہا، جنابِ ابوطالبؑ کی زوجہ جنابِ فاطمہ بنت اسدؐ نے ماں بن کر پالا آپؐ ان کو اپنی ماں کہہ کر بلاتے۔

یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے کہ بی بی حلیمہ سعدیہؓ کی شان میں جھوم جھوم کر نعتیں پڑھیں اور مردِ مومن نگہبانِ رسالت ابو طالبؑ کو کافر کہیں۔