1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (1)

متولیِ کعبہ (1)

ایک دفعہ مکہ میں قحط پڑگیا تب سردارِ مکہ عمرو نے اپنے خاندان والوں کو بُلا کر روٹی کے ٹکڑے توڑ کر سالن میں بھگو کر کھلائے اور اس طرح ان کا خاندان بھوک سے موت کے منہ میں جانے سے بچ گیا، اس واقعہ کے بعد مکہ کے سردار کا نام عمرو سے ہاشم رکھ دیا گیا، ہاشم کا معنی ٹکڑے کرنے والا ہے چونکہ عمرو نے روٹیوں کے ٹکڑے کرکے پیش کئیے تو عمرو سے ہاشم کہلائے، ہاشم کو ان کے وسیع و عریض دستر خوان کی وجہ سے سید البطحاء اور ابوالبطحاء بھی پکارا جاتا تھا، ہاشم چونکہ اولادِ نبی اللہ حضرت اسمعیلؑ میں سے تھے اسی لئے بلند حسب نسب کی وجہ سے ان کے اندر باقی عربوں کی طرح لڑائی جھگڑے، چوریاں، راہزنیاں، دھوکہ اور شراب جیسی بری عادتیں نہ تھیں، حضرت ہاشم نے اپنے پورے خاندان کو بھی ان برائیوں سے چھٹکارا دلوایا ورنہ اس سے پہلے ڈاکہ اور راہزانی قریش کا پیشہ بن چکا تھا، انہوں نے قریش کے مردوں کو اس وقت تجارت جیسے شعبہ سے منسلک کردیا اور پھر ان کی قوم سارا سال مقامی اور عالمی تجارت میں مصروف رہتی اور خوب دولت کماتے تھے، ہاشم نے اپنی قوم کے نوجوانوں کو سردیوں اور گرمیوں کے طریقہ تجارت سے بھی متعارف کروایا۔

ہاشم یعنی ہمارے پیارے آقا کریم کے پردادا اپنے وقت کے ملک التجار بھی کہلاتے تھے، آپ شام تجارت کے لئے جاتے تو راستے میں مدینہ (یثرب) میں ضرور قیام کرتے تھے، یمن میں جب سیلاب آیا تو یمنی دو بڑے قبیلے اوس اور خزرج بھی مدینہ میں آکر آباد ہوگئے، ایک دن ہاشم مدینہ کے قریب منبط نامی غلہ منڈی میں گئے تو وہاں ایک انتہائی خوبصورت خاتون کو دیکھا جو بڑے پراعتماد طریقہ سے تجارتی امور سرانجام دے رہے تھے، ہاشم خود ایک بڑے تجربہ کار تاجر تھے انہوں نے جب اس حسین عورت کے طریقہ تجارت کو دیکھا تو متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے اور اس خاتون کے خاندان کا پتہ لگوایا تو وہ خاتون مشہور قبیلہ خزرج کے خاندان بنی نجار کے بڑے تاجر عمر بن زید کی بیٹی تھیں، آپ نے نکاح کاپیغام بھیجا جو بغیر کسی حیل وحجت قبول کرلیا گیا، کیونکہ ہاشم عرب کے ایک مشہور انسان تھے۔ اس خاتون کا نام سلمیٰ تھا اور اس نے اس شرط پہ نکاح کی حامی بھر لی کہ وہ اپنی مرضی میں آزاد ہوگی اگر شوہر کو ناپسند کیا تو علیحدگی اختیار کرلے گی۔ ہاشم نے یہ شرائط قبول کرلی۔ اس طرح ہاشم نے سلمیٰ سے نکاح کرلیا اور ہمارے آقا کریمؐ کے دادا کی ماں بنیں۔

متولیِ کعبہ جنابِ عبدالمطلب پر قسط وار سلسلہ شروع کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ ہم سب مل بیٹھ کر اس مردِ خدا کو بھی یاد کریں جس نے رسول اللہ ص سے پہلے حجاز کی سرزمین پر علمِ خدا کو نصب کیا۔ جہاں محسنِ اسلام سیدنا ابوطالبؑ کو سرعام کافر پکارا جاتا ہو وہاں نبی کریمؐ کے دادا اور ابوطالبؑ کے بابا عبدالمطلب کا ذکر بلند کرنا ناممکن نظر آتا ہے پر وہ خدا کا وعدہ بھی یاد آتا ہے کہ تم میرا ذکر بلند کرو میں تمہارا ذکر بلند کروں گا، تو یہ اسی وعدے کو خدا نے وفا کیا ہے کہ جناب ہاشم سے لے کر محمد مہدیؑ کے نام کی شمع کو بجھنے ہی نہیں دیتا یہاں تک کہ عبدالمطلب کی ہی اولاد سے سرکارِ زمانہ امام مہدیؑ کی خدائی حکومت کو پوری دنیا پہ نافذ نہ کردے۔

جاری۔۔