1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (10)

متولیِ کعبہ (10)

اس دعوتِ عام پر جب سو اونٹوں کا گوشت ہر خاص و عام میں تقسیم کیا گیا تو جناب عبدالمطلبؑ نے اعلان کیا کہ ان سو اونٹوں کا گوشت مجھ پر اور میری اولاد پر حرام ہے، اسی لئے بعد میں رسولِ خدا نے بھی صدقہ اپنے اور اپنی اولاد پر حرام قرار دے دیا تھا۔

جناب عبداللہ کے عوض سو انٹوں کا خون بہا مقرر ہونے کے بعد جناب عبدالمطلبؑ نے فیصلہ کیا کہ آج کے بعد مقتول کی دیت یا خون بہا سو اونٹ ہوں گے کیوں کہ یہی خدا کی طرف سے اشارہ ملا تھا۔ اس سے پہلے پورے عرب میں خون بہا دس اونٹ مقرر تھے، آپ کے اس اعلان کے بعد پورے عرب میں مقتول کی دیت سو اونٹ مقرر کردی گئی اور بعد میں اسلام میں بھی جناب عبدالمطلبؑ کے اس فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔

جناب عبدالمطلب نے اپنے بڑے بیٹے حارث کی شادی بہت عرصہ پہلے کردی تھی اور ان کی اولاد بھی جوان ہوچکی تھی، جنگ حنین میں جنابِ حارث خود تو موجود نہ تھے پر ان کی اولاد نے نبی پاکؐ کا خوب ساتھ دیا اور جنگ بدر میں حارث کا بڑا بیٹا شہادت کے رتبے پہ فائز ہوا، جناب ابو طالبؑ کی شادی بنی مخزوم میں جنابِ فاطمہ بنت اسد سے کی اور ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام طالب رکھا اسی لئے آپ کی کنیت ابوطالب آج تک مشہور ہے۔ عبدالعزیٰ یعنی ابولہب کو امیہ کے بیٹے حرب کی بیٹی پسند آگئی اور اسی سے شادی پہ بضد ہوگیا تو اس کی والدہ لُبنیٰ نے اپنے بیٹے کی خواہش ہرصورت پوری کرنے کی ٹھانی تو جناب عبدالمطلب نے بھی بنی امیہ سے رشتہ جوڑنے کا فیصلہ کیا اس کے پس پردہ ارادہ یہ تھا کہ رشتہ جڑنے سے ہوسکتا ہے بنی امیہ کے دل بنو ہاشم کے لئے نرم ہوجائیں، حرب نے بیٹی کا رشتہ تو عبدالعزیٰ کو دے دیا مگر دل سے بنو ہاشم کے لئے نفرت نہ کم کرسکا۔

جب جناب عبدالمطلب کی عمر 72 سال ہوئی تو آپ نے جنابِ عبداللہ کی شادی کا فیصلہ کیا اور آپ کو ساتھ لے کر سردارِ بنی زہرہ وہب بن عبدمناف کے پاس گئے اور ان سے ان کی بیٹی سیدہ آمنہؑ کا رشتہ مانگنے کی خواہش ظاہر کی جو فوراً قبول کرلی گئی، جناب عبداللہ کی شادی پر بہت خوشیاں منائیں گئیں اور شادی کے بعد آپ کو الگ گھر اور ضروریاتِ زندگی کا سامان مہیاء کیا گیا ساتھ اونٹ بکریاں اور کنیزیں بھی دی گئیں، شادی کے کچھ عرصہ بعد نبی مکرمؐ حضرت محمد مصطفیٰؐ کا نور حضرت عبداللہ سے سیدہ آمنہؑ کو منتقل ہوا، حضرت عبدالمطلبؑ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو کہا کہ بیٹا میں چاہتا ہوں تم اب اپنی تجارت شروع کرو اس کے لئے ابوطالب اور عبدالعزیٰ تمہیں اپنے پاس سے تجارتی سامان مہیاء کریں گے تم جانے والے تجارتی قافلہ کے ساتھ تجارتی سامان لے جاو اور تجارت سیکھو، جناب عبداللہ نے فوراً حامی بھر لی اور اگلے ہی دن قافلہ کے ساتھ روانہ ہوگئے مختلف شہروں سے گزرتے ہوئے ملکِ فلسطین کے شہر غزہ پہنچ گئے، آپ کے دادا جنابِ ہاشم بھی تجارت کے لئے غزہ جاتے رہتے تھے۔

غزہ سے واپسی پر جب مدینہ پہنچے تو آب و ہوا اور موسم کی تبدیلی کی وجہ سے شدید بیمار پڑ گئے اور مکہ نہ جاسکے، قافلہ مکہ روانہ ہوگیا آپ نے مدینہ قیام کرلیا، مکہ پہنچنے والوں سے جب جناب عبدالمطلب نے اپنے بیٹے عبداللہ کے بارے پوچھا تو بتایا گیا کہ عبداللہ شدید بیمار ہیں آپ بہت پریشان ہوئے اور فوراً اپنے بڑے بیٹے حارث کو مدینہ بھیجا تاکہ اپنے بھائی کو واپس مکہ لاسکے، مگر حارث کے پہنچنے سے پہلے جنابِ عبداللہ 24 سال کی عمر میں وفات پاچکے تھے اور دفن بھی کئیے جاچکے تھے، حارث نے واپس آکر آپ کو اپنے بھائی کی وفات اور دفن ہونے کی خبر دی آپ انتہائی صدمے سے دوچار ہوئے آپ کو اپنی نئی نویلی دلہن اور ہونے والے نومولود کی فکر تھی، آپ نےاپنی تمام تر محبت اور توجہ اپنی بہو اور ہونے والے بچے پہ مرکوز کردی سیدہ آمنہؑ کی خدمت کے لئے کنیزوں کی تعداد بڑھا دی۔

جناب عبداللہ کی زوجہ جنابِ آمنہؑ اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی تھیں اور آپ کی یوں پردیس میں وفات پر بہت دُکھی بھی تھیں آپ نے اپنے شوہر کی وفات پہ مرثیہ بھی پڑھا۔

جاری ہے۔