1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (14)

متولیِ کعبہ (14)

رسول اللہ ﷺ کی پیدائش سے قبل اور بعد میں جو عجیب و غریب واقعات رونما ہوئے، اور ولادت کے وقت جو برکتیں، کرامات اور معجزے ہوئے اور جس طرح یہود و نصاریٰ نے پیشگوئیاں کیں عرب معاشرے میں یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ آنے والا بچہ عام نہیں ہے، مکہ میں جناب عبدالمطلب کے حریف بھی چوکنا ہوگئے تھے اس لئے سیدنا عبدالمطلب کو اس بات کا خدشہ تھا کہ بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے، اس لئے آپ نے اپنے پوتے کو ماں کا ہی دودھ پلایا اور عبدالعزیٰ کی خاص کنیز ثوبیہ کے علاوہ کسی کو جنابِ محمدؐ کے قریب نہ جانے دیتے تھے، چند ماہ بعد آپ نے بنو سعد قبیلہ کی ایک عورت جنابِ حلیمہ سعدیہ کو بلا کر آنحضرتؐ کو ان کے سپرد کردیا، اس طرح سیدنا عبدالمطلب نے آقا کریمؐ کو مکہ کی پُرخطر فضاء سے دور بھیج دیا۔

یہاں مختلف مورخین نے لکھا ہے کہ عرب اپنے بچوں کی پرورش کے لئے بدو قبائل کے حوالے کردیتے تھے مگر واقعی ایسا ہوتا تو عبدالمطلب نے اپنے دس بیٹوں میں سے کسی کو بدو قبائل میں پرورش کے لئے کیوں نا بھیجا؟ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ کو مکہ کے ماحول سے دور رکھنا چاہتے تھے، جب آپؐ کی عمر چار سال ہوئی تو جنابِ حلیمہ سعدیہؓ آپ کو واپس آپ کے دادا کے حوالے کرگئیں، چونکہ مکہ کے حالات مزید خراب ہورہے تھے تو آپ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے پاس رکھنے میں ہی بہتری سمجھی، چھ سال کی عمر کو پہنچے تو آپؐ کی والدہ ماجدہ نے اپنے شوہر کی قبر پہ جانے کی خواہش ظاہر کی، سیدہ آمنہؓ چاہتیں تھیں کہ محمدؐ اپنے بابا کی قبر بھی دیکھ لیں اور مدینہ میں اپنے ننھیال سے بھی متعارف ہوجائیں، جنابِ آمنہؑ کی خواہش دیکھتے ہوئے باجود ضعیفی کے سیدنا عبدالمطلب اپنی بہو اور پوتے کو لے کر مدینہ روانہ ہوگئے، اور واپسی پہ سیدہ آمنہؑ کی وفات ہوگئی۔

نبی کریمؐ کی والدہ کی وفات کے بعد سیدنا عبدالمطلب رسول اللہ صﷺکا مزید خاص خیال رکھنے لگے، آقا کریمؐ بچپن سے ہی غیر معمولی عادات رکھتے تھے عبدالمطلب آپ میں موجود نبوت کی نشانیاں دیکھ کر حد درجہ احترام کرنے لگے تھے، قریش اور عبدالمطلب کے بیٹے بھی آپ کا اپنے کم سن پوتے کا احترام دیکھ کر حیران ہوتے تھے، آرام کے وقت آپ کے کمرے میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہوتی تھی مگر رسول اللہ ﷺ اگر کمرے میں چلے جاتے تو عبدالمطلب ایسے استقبال کرتے جیسے پہلے سے منتظر ہوں، کعبہ کی دیوار کے سایہ میں جب آپ کے لئے خاص قالین بچھائی جاتی تو قالین پہ ساتھ بیٹھنے کی آپ کے بیٹے بھی جرآت نہ کرتے تھے مگر محمدؐ جیسے ہی آتے وہ قالین پر چلتے ہوئے اپنے دادا کے پاس جا بیٹھتے اگر کوئی روکنے کی کوشش کرتا تو سیدنا عبدالمطلب منع کردیتے اور کہتے دیکھو اس کے چال ڈھال ابھی سے سرداروں والے ہیں۔

جب سیدہ آمنہؑ کا انتقال ہوا تو سیدنا عبدالمطلب کی عمر اسی سال تھی، آپ کی طبیعت میں بہت زیادہ تبدیلیاں آگئیں تھیں، روحانیت حد درجہ بڑھ چکی تھی، آپ کا وقت زیادہ تر مکہ سے دور غارِ حراء میں گزرتا تھا، آپ خداوند کی طرف متوجہ رہتے، خاص طور پہ ماہ رمضان میں آپ پورا مہینہ غارِ حراء میں ہی رہتے تھے، آپ ماہ رمضان میں مساکین و غرباء کو کھانا کھلاتے رہتے تھے، پھر مراقبہ میں مشغول رہتے آپ سب کچھ ترک کرکے اللہ کی وحدانیت کا ذکر کرتے رہتے تھے۔

577ء میں آپ یمن کے بادشاہ کی تاج پوشی سے واپس آئے تو مکہ میں شدید قحط آیا ہوا تھا، انسان اور جانور بھوک سے مر رہے تھے، انہی دنوں مکہ کے ایک شخص کوخواب میں کسی نے کہا " اے قومِ قریش زمانے کے نبیؐ پیدا ہوچکے ہیں، اور ان کے ظہور کا زمانہ قریب ہے، جس کی برکت سے تمہیں فراغت و خوشحالی نصیب ہوگی، تم لوگ ایک ایسے شخص کو تلاش کرو جو تم میں شریف النسل ہو اس کےبدن کی ہڈیاں لمبی ہوں اور جس کی جلد گوشہ چشم کے قریب اور چمکدار ہو جس کے سر کے بال آگے سے کم ہوں دونوں رخسار ہموار ہوں بھویں ایک دوسرے سے ملی ہوں اور ابرو تک ناک باریک ہوایسے آدمی سے کہو اپنی تمام اولاد کو ساتھ لے کر باہر نکلے اور پانی کے لئے دعا کرے۔

جب خواب والے نے صبح سب کو یہ خواب سنایا تو یہ تمام تر نشانیاں سیدنا عبدالمطلب میں پائیں لہذا قریش نے عبدالمطلب سے یہ درخواست کی کہ آپ بارش کے لئے دعا کیجئے، آپ کو اللہ پہ کامل ایمان تھا، اپنے پوتے کی برکات اور اپنی دعا پہ یقین تھا کہ آپ نے قریش سے کہا ہر قبیلہ سے ایک لڑکا نہا کر صاف کپڑے پہنے اور میرے پاس آجائے، جب سب جمع ہوگئے تو آپ نے سب کو ساتھ لیا اور اپنے پوتے محمدِ مصطفیٰؐ کو اپنے کندھوں پہ بٹھایا اور بوقبیس نامی پہاڑ پر گئے اور یوں دعا کی" اے حاجات کو پورا کرنے والے، مصائب کو دور کرنے والے، بغیر بتائے جاننے والے، بے پایاں بخشنے والے، اے اندووغم کو زائل کرنے والے یہ تیرے حرم کے بندے اور غلام تنگی اور قحط کی شکائت کرتے ہیں، ان کی بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہلاکت کے کنارے پہ پہنچ چکے ہیں، اے اللہ بارش بھیج جو سبزے کے اگنے کا سبب ہو اور ہماری زندگی کی بقاء کا باعث ہو۔

ابھی آپ اور قریش دعا مانگ کر واپس آہی رہے تھے کہ بارش برسنے لگی سردارانِ قریش نے کہا اے ابو البطحاء تجھے یہ نعمت و فضیلت مبارک ہو۔ یاد رہے دعا کا یہ طریقہ پہلی بار سیدنا عبدالمطلب نے متعارف کروایا اس سے پہلے عرب بارش مانگنے کے لئے ایک گائے کو پہاڑ پہ لے جاتے اس کی دُم کو آگ لگا کر مغرب کی جانب دوڑا دیتے تھے، سیدنا عبدالمطلب نے قریش کو خدائے واحد سے دعا مانگنے کا نیا طریقہ تعلیم فرمایا۔

جاری ہے۔۔