1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (9)

متولیِ کعبہ (9)

539ء میں حضرت عبدالمطلب نے چار شادیاں کیں، ایک حارث نامی بیٹا پہلی بیوی سے تھا، ان چار بیویوں سے آپ کے ہاں نو بیٹے اور چھ لڑکیاں پیدا ہوئیں، سب سے بڑے بیٹے کا نام ابوطالب تھا، ابوطالبؑ کاپیدائشی نام عبدمناف تھا، دوسرے بیٹے کا نام عبدالعزیٰ جسے ابولہب بھی پکارا جاتا ہے، ان دونوں بیٹوں میں چند ماہ کا ہی فرق تھا، تیسرا لڑکا زبیر اس کے بعد حضرت عبداللہ جوہمارے پیارے نبیؐ کے والد تھے، ان کے بعد مقوم، حجل اور ضرار، زبیر اور عباس پیدا ہوئے۔ 567ء میں آپ کے بیٹوں کی تعداد دس پوری ہوگئی اس وقت ابوطالب اور عبدالعزیٰ کی عمر تقریباً انتیس اور تیس سال تھی، زبیر کی تئیس اور عبداللہ کی بائیس سال عمر تھی، عباس دو اور حمزہ ایک سال اور سب سے بڑے بیٹے حارث کی عمر سینتالیس سال ہوچکی تھی۔ آپ کی عمر میں آپ کی آنکھوں کے سامنے سب زندہ و سلامت تھے، آپ کی بیٹیوں میں قدرتی طور پر شعر کہنے کی صلاحیت موجود تھی، اسی لئے مختلف تواریخ میں ملتا ہے کہ جنابِ حمزہ کی دردناک شہادت پر آپ کی بہنوں نے بہت پُردرد مرثیے کہے۔

ایک دن جناب عبدالمطلبؑ نے اپنے سب بیٹوں کو اپنے پاس جمع کیا اس وقت آپ کی عمر بہتر سال ہوچکی تھی، تمام بیٹوں کو جمع کرنے کے بعد ان سے کہا کہ میرے بچوں تقریباً تیس سال قبل جب میں زم زم کی تلاش میں کھدائی کررہا تھا تو مجھے امیہ کے بیٹے حرب نے ایک بیٹا ہونے کا طعنہ دیا تھا تب میں نے منت مانی تھی کہ اللہ مجھے دس بیٹے دے اور میری زندگی میں وہ زندہ رہے تو میں اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کروں گا۔ میں چاہتا ہوں اب اپنی نذر کو پورا کروں تم لوگ کیا کہتے ہو؟

تمام بیٹوں نے وہی جواب دیا جو ابراھیمؑ کو ان کے بیٹے اسمٰعیلؑ نے دیا تھا کہ آپ ہمیں صبر والوں میں سے پائیں گے، تمام بیٹوں کے اس جواب کے بعد آپ مطمئن ہوگئے اور اپنے ارادے سے قریش کو آگاہ کیا، یہ سنتے ہی آپ کی بیویوں نے شور مچا دیا اور آپ کی بیٹیاں لپٹ کر رونے لگیں، مگر آپ نے کسی کی بات نہ سنی اور اپنی بات پہ مضبوطی سے قائم رہے۔

دس بیٹوں میں سے کس بیٹے کو قربان کرنا ہے اس کا فیصلہ کرنے کے لئے اس وقت کے مشہور فال نکالنے والے شخص صفوان کے پاس پہنچے، عرب کسی بات کا فیصلہ کرنے کے لئے ایسار یعنی استخارہ کرواتے اور اس کام کے لئے ایک مخصوص آدمی استخارہ کرنے کے منصب پر فائز ہوتا تھا، یہ شخص تیروں سے فال نکالتا تھا، اسی طرح سب تیروں پہ عبدالطلب کے تمام بیٹوں کے نام لکھے گئے آخر حضرت عبداللہ کا نام نکلا آپ کو تمام بیٹوں میں حضرت عبداللہ سے بہت محبت تھی مگر اس فیصلے کے بعد آپ کے چہرہ پر گھبراہٹ نمودار نہ ہوئی ہر طرف مشہور ہوگیا کہ عبدالمطلب اپنے سب سے پیارے بیٹے عبداللہ کو قربان کرنے جارہے ہیں، جناب عبداللہ کی والدہ اور بہنیں رو رہی تھیں مگر عبدالمطلب اپنے ارادہ میں پختہ نظر آرہے تھے جناب عبداللہ کی والدہ کے قبیلہ کے ایک شخص مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخذوم جو رشتے میں جناب عبداللہ کا ماموں تھا، عبدالمطلب سے کہا ہم عبداللہ کو ہرگز ذبح نہیں ہونے دیں گے جب تک اس کی قرعہ اندازی نہ کی جائے فدیہ کا مال ہم مال ادا کردیں گے مگر آپ بضد رہے۔ آخر قریش کے عمائدین نے کہا کیوں ناں ہم حجاز کی سب سے زیادہ غیب کی خبریں دینے والی قطبہ نامی عارفہ سے اس کا حل پوچھ لیں عبدالمطلب اس بات پہ راضی ہوگئے اور سب لوگ مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے، اس وقت وہ عارفہ مدینہ کے قریب حجر نامی بستی میں رہتی تھی، جب سب لوگ حجر پہنچے تو پتہ چلا کہ وہ عورت خیبر میں موجود ہے، تمام لوگ خیبر پہنچے اور اس سے مدعا بیان کیا، اس عورت نے تمام حالات سن کر کہا آج تم لوگ واپس چلے جاو، میں آج رات اپنے موکل سے معلوم کروں گی کہ عبداللہ کو قربان کیا جائے یااس کا کوئی نعم البدل موجود ہے۔

دوسرے دن جب سب لوگ قطبہ کے پاس پہنچے تو اس نے پوچھا آپ لوگوں کے ہاں مقتول کی دیت یا خون بہا کیا ہے عبدالمطلب نے فرمایا دس اونٹ، قطبہ نے کہا اپنے وطن لوٹ جاو اور دس اونٹ اور عبداللہ کی قرعہ اندازی کرو اگر عبداللہ کا نام نکلے تو دس اونٹ بڑھا دو یہاں تک کہ قرعہ اونٹوں کے نام نہ نکل آئے، سب لوگ یہ حل سن کر خوش ہوگئے اور واپس مکہ لوٹ آئے۔

حضرت عبداللہ اور دس اونٹوں کی قرعہ اندازی کی گئی نو دفعہ عبداللہ کا نام نکلا اور آخری بار اونٹوں کا اس طرح حضرت عبداللہ کے بدلے سو اونٹ قربان کئیے گئے اور اللہ نے حضرت عبداللہ کو بچا لیا۔ سو اونٹ صفاء و مروہ کے درمیان ذبح کئیے گئے اور ہر خاص و عام کو جتنا مرضی گوشت لے جانے کی عام اجازت دی گئی اس دن پورے مکہ کے لوگوں نے گوشت کھایا حتیٰ کہ چرند پرند بھی بھوکے نہ رہے۔

جاری ہے۔