1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. نئی اور پرانی سردیاں

نئی اور پرانی سردیاں

سال 2000 سے پہلے آنے والی سردیوں کا لوگ شدت سے انتظار کرتے تھے، تب ٹیکنالوجی عام نہیں ہوئی تھی، گھر گھر موبائل نہیں تھے، انٹرنیٹ ہر کسی کی دسترس میں نہ تھا، اس دور میں سردیاں لوگوں کے مل بیٹھنے کا ذریعہ بھی سمجھی جاتی تھیں، دیہاتوں میں کسی ڈیرے پر رات کے کھانے کے بعد لوگ جمع ہوجاتے تھے، درمیان میں آگ جلائی جاتی تھی، دن بھر کی باتیں ڈسکس کی جاتی تھیں، ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشیاں بانٹی جاتی تھیں، ہر علاقہ میں ایسا ایک ضرور بندہ ہوتا تھا جو پرانے وقتوں کے قصے سنایا کرتا تھا، نوجوان لڑکوں کی ذمہ داری حقہ گرم کرنے اور جلتی آگ میں لکڑیاں ڈالنا تھیں، نوجوان بزرگوں کی محافل میں بیٹھ کر دنیا داری کے تجربات حاصل کرتے تھے، اخلاقیات کا درس اور بزرگوں کی تعظیم سیکھتے تھے۔

اس دور میں سردیوں میں اگر کوئی رشتہ دار آجاتا تو پورا گھر خوشی سے جھوم اٹھتا، رات کھانے کے بعد سب گھر والے ایک کمرے میں جمع ہوجاتے، چائے کے بعد گرم گرم مونگ پھلی کا دور چلتا تھا، مونگ پھلی کے ساتھ گُڑ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سب میں بانٹے جاتے تھے، بزرگ جوان بچے سب اس محفل کو بہت انجوائے کرتے تھے۔

ہمارے بھی ایک بزرگ تھے، جو کبھی کبھی ہمارے ننھیال آتے تھے، ان کو گزرے وقت کے بادشاہوں کی لمبی لمبی کہانیاں زبانی یاد ہوا کرتی تھیں، ان کی یہ کہانیاں کئی اقساط پہ محیط ہوا کرتی تھیں، ہم ان کے آنے کا بہت انتظار کرتے تھے، وہ جب کہانی سناتے تو ہمیں یوں لگتا تھا جیسے ہم وہ کہانی سُن نہیں بلکہ دیکھ رہے ہوں، ہمارے وہ بابا اپنے پاس ہر وقت ریوڑیاں اور ٹافیاں رکھتے تھے، ہمیں لکڑی کا گھُگھو گھوڑا بنا دیتے تھے، اس دور میں قیمتی کھلونے اور ویڈیو گیمز لینا ہماری حیثیت سے باہر تھے، سگریٹ کی ڈبیا کو آٹے سے جوڑ کر کاغذی گاڑیاں بنانا ہمارا بہترین مشغلہ تھا۔

آپ سب میرے ہم عُمر یا مجھ سے بڑی عمر کے افراد اس بات کی گواہی دیں گے کہ اس وقت ہمیں ہمارے ماں باپ، نانا، نانی، دادا اور دادی سے ایک خاص قسم کی خوشبو آتی تھی اور وہ اتنی مانوس قسم کی خوشبو تھی کہ آج کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی کبھی پرانے صندوق سے مرحوم بزرگوں کی کوئی چیز نکل آئے تو وہی خوشبو آتی ہے جو ہمیں ہمارے بچپن لے جاتی ہے۔

سردیاں اب بھی آتی ہیں، پہلے جیسے آتی ہیں، مگر اب سردیاں پہلے جیسی سادگی، خلوص اور محبت کے بغیر آتی ہیں، اب مل بیٹھنے کے باوجود بھی ہم تنہاء ہوتے ہیں، دس لوگوں کی محفل میں مکمل خاموشی ہوتی ہے کیوں کہ سب کی نظریں اور دل موبائل پہ مرکوز ہوتے ہیں، رشتوں میں خلوص کی جگہ حسد، بغض اور عناد نے لے لی ہے، اب لکڑیوں کی جگہ دل جلتے ہیں، حقے کاپانی خشک ہوچکا ہے، کیوں کہ بزرگوں کے لئے آگ جلانے والے رزق کی تلاش میں گاوں چھوڑ کر پردیس میں جا بسے ہیں۔

وہ جن کے دم سے رونقیں تھیں اور جن سے ہمیں محبتوں کا درس ملتا تھا جن کی خوشبو ہماری زندگی تھی وہ گاوں سے دور شہرِ خموشاں میں جا آباد ہوئے ہیں۔

سردیاں تو اب بھی آتی ہیں مگر مل بیٹھنے والے بچھڑ گئے۔