1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. راحتِ محمدﷺ (1)

راحتِ محمدﷺ (1)

ایک دفعہ یمن کے بادشاہ تبع نے مکہ پر حملہ کیا، قبضہ کرنے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ وہ حجرِ اسود کو اپنی اصل جگہ سے اکھاڑ کر اپنے ساتھ یمن لے جائے گا، قریش نے اس کی شدید مخالفت کی مگر یمنی بادشاہ کی فوج کے خوف سے سب خاموش ہوگئے۔

مگر قریش میں ایک نوجوان ایسا تھا جو باقاعدہ مزاحمت پر اتر آیا اور اس نے یمنی بادشاہ کو للکارا اور حجر اسود کو اکھاڑنے سے منع کیا، قریش اس نوجوان کی ہمت و بہادری کی داد دئیے بنا نہ رہ سکے، اس کی دلیری سے متاثر ہوکر باقی قریشی نوجوان بھی اس جوان کے ساتھ آن ملے، یمنی بادشاہ پر ایسا خوف طاری ہوا کہ وہ مکہ چھوڑ کر واپس چلا گیا۔

اس واقعہ کے بعد وہ نوجوان پورے مکہ اور گردونواح میں مشہور ہوگیا اور اس کی دلیری کے قصے ہر خاص و عام کی زبان پہ جاری ہوگئے۔ یہ نوجوان خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصیٰ بن کلاب تھا۔ قصیٰ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے چوتھے جد امجد تھے، نبی پاک ﷺ کا سلسلہ نصب محمد ﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصیٰ بن کلاب تھا۔

یعنی خویلد اور نبی پاک ﷺ کا خاندان ایک ہی تھا۔ خویلد قریش کے ایک امیر ترین گھرانے سے تھے، آپ اپنے وقت کے مشہور کاروباری شخص تھے، نیک نامی، شرافت، دانائِی، پاک دامنی اور دلیری آپ کے خون میں شامل تھی، آپ قبل از اسلام بھی دینِ حنیف پر تھے، آپ نے کبھی بت پرستی نہیں کی تھی۔

جب عرب خاص طور پرقریش تنگ دستی اور غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔ اس دور میں بھی خویلد کے ہاں کئی سو غلام خدمت کے لئے موجود رہتے تھے۔ عرب کے اس تاریک دور میں جہاں بیٹیوں کی پیدائش باعثِ شرمندگی سمجھا جاتا تھا اور عورت کو جانور اور کمتر شے سمجھا جاتا تھا۔

اس وقت خویلد کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی، جسے خویلد نے شکرِ خدا کے ساتھ قبول کیا اور اس بیٹی کا نام "خدیجہ" رکھا۔ خدیجہؑ کے بچپن کی معلومات ہمیں میسر نہیں ہیں اور نہ ہی آپ کی تاریخِ پیدائش کے بارے پتہ چل سکا، البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ جنابِ خدیجہ آقا کریمؐ کی دنیا پر آمد سے پندرہ سال قبل پیدا ہوئیں۔

جس دور میں عرب میں پاکدامن عورتوں کی تعداد بہت کم تھی، زنا، بے حیائی اور برائیاں عروج پر تھیں، شراب و کباب اور جواء کو گناہ برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس معاشرے میں خدیجہ "طاہرہ" کے لقب سے جانی جاتی تھیں، شرافت، باکردار، عفت و پاکدامنی جیسی خوبیوں کی مالکہ اپنی جوانی کے ایام میں عرب کی بہت بڑی تاجرہ بن کر ابھریں۔

آپ نہ صرف کاروباری شخصیت تھیں، بلکہ نیک دل اور رحم کرنے والی خاتون بھی تھیں، غرباء و مساکین پر آپ کی شفقت و رحم دلی کے کئی قصے مشہور تھے۔ ذہانت میں اپنی مثال آپ خدیجہؑ کے ہاں درہم و دینار، سونا چاندی اور کئی ہزار اونٹ موجود تھے۔ آپ نے اپنے سرمایہ کو بانٹ کر مختلف کاموں پر لگایا۔

آپ ایک وقت میں عرب کے کئی بڑے سرمایہ داروں کے ساتھ نفع و نقصان کی شرائط پر کاروبار کرتی تھیں، آپ کے بہت سے کاروباری نمائندے آپ کا تجارتی سامان کے ساتھ یمن، شام، طائف، مصر، عراق، عمان، بحرین، فلسطین اور حبشہ کی عالمی منڈیوں میں جاتے، آپ کے کچھ کاروباری نمائندے نت نئی کاروباری منڈیوں کی تلاش کرتے۔

اور وہاں جاکر آپ کا سامان فروخت کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ کی دولت میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا، تقریباً اس دور میں اسی ہزار اونٹ آپ کا مالِ تجارت لے کر مختلف ممالک میں بکھرے ہوتے تھے، صرف آپ کے محل میں کئی سو غلام اور کنیزیں خدمت پر مامور تھیں، مکہ میں سب سے بڑے محل کی مالکن خدیجہؑ کے ہاں مہمان نوازی بھی اپنی مثال آپ تھی۔

یہ محل اتنا بڑا تھا کہ ایک وقت میں پورے مکہ کی آبادی سما سکتی تھی، اس محل کی اوپری منزل کی چھت نیلی تھی۔ جس پر سورج، چاند اور تاروں کی تصاویر بنی ہوئیں تھیں۔ نوٹ: خدا کی خاص کرم نوازی سے میں اس سے قبل جدِ رسولؐ جنابِ عبدالمطلبؑ، جنابِ ابوطالبؑ، والدہ ماجدہ جنابِ آمنہؑ اور جنابِ فاطمہ بنت اسدؑ پر تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔

ان شاءاللہ ایامِ فاطمیہؑ میں ہم ام المومنین سیدہ خدیجہؑ اور سیدہ فاطمہؑ بنتِ محمدؑ کے بارے لکھیں گے، آپ احباب سے گزارش ہے کہ قسط وار اس سلسلہ کو اپنے پاس محفوظ رکھیں اور اپنے دوست احباب کے ساتھ شئیر بھی کرتے رہیں۔

جاری۔۔