1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. نو حرامزدگیاں

نو حرامزدگیاں

آپ صبح سویرے یا مغرب سے کچھ دیر پہلے اپنے شہر کے پاس نہر پہ جائیں آپ کو کئی دودھ بیچنے والے اپنے ڈرم دھونے کے بہانے دودھ میں پانی ملاتے نظر آئیں گے۔آپ اپنے شہر کی سبزی منڈی میں چلے جائیں آپ کو کئی سبزی فروش گلی سڑی سبزیاں، تازہ سبزیوں کی ٹوکریوں میں مکس کرتے نظر آئیں گے۔آپ کریانہ کی دکان پہ کوئی چیز خریدنے جائیں آپ کو وزن کرنے والے کنڈے کے نیچے بھاری مقناطیس یا سلوشن ٹیپ سے چپکا ہوا وزنی پتھر نظر آئے گا جو دکاندار کو وزن میں ہیرا پھیری کرنے میں مدد دیتا ہے۔

آپ کپڑے کی دکان پہ چلے جائیں آپکو اچھی قسم کے کپڑے کی قیمت بتا کر اسی رنگ میں دونمبر کپڑا بڑے خوبصورت سے شاپنگ بیگ میں پیک کرکے دے دیا جائے گا۔ آپ فاسٹ فوڈ کی وی آئی پی برانچ پہ چلے جائیں آپ کو مری ہوئی حرام مرغیوں کے گوشت کے شوارما مہنگے داموں کھلادئیے جائیں گے۔

آپ شہر کے مہنگے شادی حال پہ چلے جائیں وہاں کا مینجر آپ کے کان میں ضرور کہے گا صاحب جی اگر سستا کام کرنا ہے تو عام مہمانوں کے لئے ٹھنڈی مرغی (مری ہوئی) لگوا لیں۔ آپ کو چکن کا گوشت اگر عام مارکیٹ سے ہٹ کر کم قیمت پہ سیل میں گوشت مل رہا ہے تو تحقیق پہ پتہ چلے گا کہ مرغی بیمار تھیں مرغی فارم کے مالک نے سیل لگوا دی۔

آپ کو اگر سرخ مرچ میں ذائقہ محسوس نہیں ہورہا تو اس میں اینٹوں کو پیس کرڈالا گیا ہے۔ اگر اب آپکو حرام جانور عام جگہوں پہ مردہ پڑے نظر نہیں آتے تو سمجھ جائیے آپ کو جو سستا کوکنگ آئل مل رہا ہے یہ انہی حرام مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے تیار شدہ ہے۔ آپ گولڈ کی دکان پہ چلے جائیں آپ کو انتہائی مہارت سے ملاوٹ شدہ سونا اصل سونے کی قیمت پہ خوبصورت جیولری باکس میں ڈال کر دیا جائے گا اور ساتھ ایک بٹہ دو چائے بھی پلائی جائے گی۔

آپ ہسپتال میں چلے جائیں وہاں آپکو دوائیوں کی لمبی لسٹ لکھ کردے دی جائے گی تاکہ جب آپ کا مریض ڈسچارج کردیا جائے گا تو ہسپتال کا عملہ آپکی بچی ہوئی دوائیاں دوبارہ میڈیکل سٹور والوں کو دے کر پیسے لے لئے جائیں۔ تھانہ کچہری میں عزت صرف امیروں کی ہوتی ہے چاہے وہ قاتل ہی کیوں نا ہوں۔

برانڈڈ سکولوں کی فرنچائز لے کر غریب اور ضرورت مند بچیوں کو کم تنخواہ پہ ملازمت دے کر ان کی عزتوں سے کھیلا جارہا ہے۔ تعلیم کے نام پہ کاروبار کئیے جارہے ہیں۔ آپ کے اردگرد روزانہ دھوکہ دہی فراڈ قتل کے واقعات روزانہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

روز ہی کسی کھیت، گندے نالے یا پانی کی ٹنکی سے معصوم بچی یا بچے کی زیادتی کے بعد مسخ شدہ لاش ملتی ہے اور تحقیق کرنے پہ قاتل کزن، چچا، رشتہ دار نکلتا ہے۔ مدرسہ میں بچوں کے ساتھ روزانہ ہی زیادتی کے واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ درباروں کے گدی نشین اور منبر پہ بیٹھے خطیب دین کے نام پہ اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔

اوپر لکھی گئی تمام حرامزدگیاں کسی غیر مسلم معاشرے میں نہیں بلکہ اس ملک میں ہورہی ہیں جس کی عوام نعرہ لگاتی ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ، یہ تمام تر کارنامے وہ قوم کررہی ہے جو سارا سال بے ایمانیاں، دھوکے فراڈ ملاوٹ زنا شراب نوشی جیسی بے غیرتیاں کرتی ہے اور چودہ فروری سے پہلے say no to valentine day کی پوسٹیں کرکر کے ہلکان ہوجاتی ہے۔ شادی شدہ مرد عورت کی غیر محرموں سے دوستیاں کرنے والے ویلنٹائن ڈے پہ حجاب ڈے منانے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا حجاب ڈے صرف چودہ فروری کو یاد آتا ہے؟ سارا سال جینز، ٹائیٹس، شارٹ اور پتلے لباس والی گرل فرینڈ کی تلاش رہتی ہے لیکن چودہ فروری کو اپنی بہن پہ پابندی کیوں لگاتے ہیں؟ ہر طرف پوسٹ نظر آنے لگی ہیں کہ کمرے بک ہوچکے ہیں، پریکاشنز خریدے جاچکے ہیں ویلنٹائین ڈے پہ لڑکیاں محبت کے نام پہ عزتیں لٹوانے خود جائیں گی، مجھے یہ سمجھ نہیں آتی ان لوگوں کو اتنی اندر کی باتیں کیسے پتہ چل جاتی ہیں؟

اگر آپ کو اتنا ہی دین پسند ہے تو دوسروں کے بیٹے بیٹیوں کے کردار پہ نظر رکھنے کی بجائے اپنی اولاد کو اچھی تربیت دیں جو جوان ہوکر دوسروں کی عزت سے کھیلنے کی بجائے نکاح جیسے پاکیزہ رشتے میں بدلیں، نکاح کو آسان بنائیے نا کہ بیٹی والوں کو جہیز کی لمبی لسٹ تھما دیں اور نا ہی بیٹی والے لڑکے کی کار بنگلہ کوٹھی بڑی نوکری دیکھیں۔

ضروری نہیں ویلنٹائین ڈے پہ زنا ہوتا ہے یا بے حیائی پھیلائی جاتی ہے یہ تو ہر کسی کی اپنی ذہنیت پہ منحصر ہے وہ اپنی محبت سے اپنا جسم اور روح ناپاک کرتا ہے یا نکاح جیسے مقدس رشتہ میں بندھ جاتا ہے، سارا سال ہی ہر دن محبت کا دن ہے چاہے یہ محبت والدین سے ہو یا اپنی بیوی سے یا پھر اپنی اولاد سے۔

اپنی تمام تر حرامزگیوں کو یاد رکھتے ہوئے اس بار say no to valentine day کی بجائے say no to حرامزگیاں کا نعرہ لگائیے۔