1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. سٹرانگ عظمیٰ

سٹرانگ عظمیٰ

عظمیٰ گیلانی ایک دیہات کی رہنے والی انڈر میٹرک لڑکی تھی، باپ فیکٹری میں مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پالتا تھا، عظمیٰ تھوڑی بڑی ہوئی تو باپ کا زور بازو بننے کے لئے اسی فیکٹری میں کام شروع کردیا جہاں اس کے والد مزدوری کرتے تھے، چونکہ فیکٹری گھر سے دور تھی اور باپ بیٹی کو ویگن پہ جانا پڑتا تھا اور آنے جانے پہ کرایہ بھی لگتا تھا، آمدن زیادہ نا تھی تو کرایہ پہ کافی پیسے خرچ ہوجایا کرتے تھے، باپ بیٹی نے فیصلہ کیا کہ کرایہ کے پیسے بچانے کے لئے فیکٹری پیدل جایا کریں گے، اب عظمیٰ اور اس کا باپ دو گھنٹے مسلسل پیدل چل کر کام پہ جایا کرتے اور پیدل ہی واپس آتے تھے۔

عظمیٰ کی شادی ایک پڑھے لکھے انسان سے ہوئی جو ہر وقت عظمیٰ کو کم تعلیم کے طعنے دیا کرتا تھا، عظمیٰ عام مشرقی عورتوں کی طرح شوہر کی خدمت گزاری میں رہتی تھی، اس کا شوہر انتہاہی چلاک شخص تھا لوگوں سے دھوکے فراڈ کیا کرتا تھا، ایک دن عظمیٰ کے باپ کو جھانسا دے کر ان کا چھوٹا سا ذاتی مکان فروخت کروادیا اور کہا شہر میں مکان لے دیتا ہوں، سادہ لوگ تھے اس کی باتوں میں آگئے اپنا مکان فروخت کرکے شہر میں آن بسے، عظمیٰ کا شوہر فروخت کردہ مکان کے پیسے اور چند اور افراد سے رقم لے کر فرار ہوگیا اور بدلے میں عظمیٰ کے بھائیوں کے چیک دے گیا، جس مکان میں عظمیٰ اپنے دو ماہ کے بیٹے اور ماں باپ کے ساتھ رہ رہی تھی چند ہی دن بعد اس مکان کا مالک کرایہ مانگنے آگیا اور کرایہ نا دینے پر انہیں گھر سے نکال دیا، عظمیٰ اور اس کے والدین دو دن ایک پارک میں بیٹھے رہے اور پھر عظمیٰ کے والد کا دوست انہیں گھر لے گیا، والد کے دوست نیک انسان تھے انہوں نے عظمیٰ کو مشورہ دیا کہ وہ تعلیم حاصل کرے اور اپنے پاوں پہ کھڑی ہو، عظمیٰ نے میٹرک میں داخلہ لیا بقول عظمیٰ کے اس نے ساری کتابیں اتنی رٹیں کہ زبانی یاد ہوگئیں اور میٹرک کے امتحانات میں 666 نمبر لئے، عظمیٰ سمجھ رہی تھی کہ اب اسے نوکری مل جائے گی مگر ایسا پاکستان میں کہاں ہوتا ہے، خیر عظمیٰ نے ہمت نا ہاری اور پڑھائی جاری رکھی، اور بی کام کرلیا، اس دوران اس نے عدالت سے خلع لے لیا، عظمیٰ کی شادی اپنے سے کم عمر لڑکے سے طے پاگئی، اس وقت عظمیٰ کا بیٹا بھی بڑا ہوگیا، عظمیٰ نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری جاری رکھی، عظمیٰ نے شوہر کو میڈیکل سٹور بنا دیا اور زندگی کے چند ایام خوشی سے گزارے، اس شوہر سے عظمیٰ کو اللہ نے بیٹی بھی عطاء کی، عظمیٰ نے کمیٹی ڈالی اور نکلنے پہ ایم بی اے میں داخلہ لے لیا، پہلی کلاس والے دن عظمیٰ کے شوہر کو فالج ہوگیا ہسپتال پہنچنے کے بعد اس کے شوہر کو برین ہیمریج بھی ہوگیا، اور وہ کوما میں چلا گیا اب عظمیٰ یونیورسٹی بھی جاتی، میڈیکل پہ بھی خود کھڑی ہوتی اور رات کو شوہر کی دیکھ بھال کرتی اور چوبیس گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے سو پاتی تھی، ڈاکٹرز کہتے کہ اسے گھر لے جاو یہ اب نہیں بچ پائے گا، مگر عظمیٰ نے ہمت نہیں ہاری اور خدا سے دعا کرتی رہی ایک دن اچانک اس کا شوہر کوما سے باہر آگیا ڈاکٹر نے آپریشن کرنے کی تجویز دی اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ نوے فیصد چانس مرنے کے ہیں اور آپریشن پہ آٹھ لاکھ لگے گا، عظمیٰ نے اپنا دو مرلہ کا گھر بیچ ڈالا اور شوہر کا آپریشن کروایا اور اللہ نے اسے نئی زندگی دی اور صحت یاب ہوکر گھر واپس آگیا، عظمیٰ نے ایم بی اے اچھی پوزیشن سے پاس کیا اور ایم فل میں داخلہ لے لیا، اب ایک دن عظمیٰ کو اٹیک ہوا اور بلڈ پریشر چالیس پہ آگیا کافی دن ہسپتال رہی اس دوران میڈیکل ختم ہوگیا اور شوہر بھی صحیح سے بول نا پاتا تھا، یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء نے ملکر عظمیٰ کو قرض حسنہ دیا اور عظمیٰ نے دوبارہ میڈیکل سٹور بنا لیا۔

عظمیٰ نے اس دوران چائنیز زبان کا کورس بھی کرلیا، ایم بی اے، ایم فل اور چائینز زبان کے کورس کے بعد عظمیٰ کو نوکریوں کی آفرز ہونے لگیں مگر اس نے سب آفرز ٹھکرا دیں اور اپنے میڈیکل سٹور کو ہی چلانے کی ٹھانی، ایک اور اہم بات عظمیٰ لگاتار مصیبتیں دیکھ دیکھ کر ایک دن خودکشی کرنے لگی تو بارہ سالہ بیٹے نے کہا مما اتنی مشکلات دیکھی ہیں اب تو اچھا وقت آنے والا ہے اب آپ ہمت ہار گئی ہیں، بچے نے ماں کو یوٹیوب چینل بنا دیا اور کہا یہاں اپنی زندگی کی سٹوریز دوسروں سے شئیر کرو اور اگر یوٹیوب سے آمدن ہوئی تو اسے بے سہارا عورتوں پہ خرچ کرنا۔

اب عظمیٰ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ خوشیوں بھری زندگی جی رہی ہے، Strong Uzma کے نام سے یوٹیوب چینل بھی چلا رہی ہیں اور ہمت ہار جانے والی خواتین کو سہارا اور حوصلہ بھی دیتی ہیں۔

اتنی لمبی کہانی لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ مجھ سے سمیت ہم سب کبھی نا کبھی زندگی کے مصائب اور آزمائشوں سے تنگ آکر زندگی کا خاتمہ کرنے کا سوچنے لگتے ہیں مگر جب ہمارے سامنے ایسے باہمت انسانوں کی داستانیں آتی ہیں تو اپنی پریشانیاں بھول جاتی ہیں، بہت سی خواتین و حضرات کو جانتا ہوں جو زندگی میں آنے والے طوفانوں کے بعد ٹوٹ چکے ہیں اور وہ اس وقت میری یہ تحریر پڑھ بھی رہے ہیں ان سب سے ہاتھ جوڑ کے اپیل کرتا ہوں کہ ہمت مت ہاریں حوصلہ رکھیں زندگی میں ایک راستہ بند ہونے پہ واپس نہیں پلٹا جاتا متبادل راستے اختیار کرکے منزلِ مقصود پہ پہنچا جاتا یے۔