1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. دی سویمرز

دی سویمرز

نیٹ فلیکس پر آج کل ایک نئی فلم کی دھوم مچی ہے، یہ کہانی یسریٰ ماردینی اور سارا ماردینی دو بہنوں کی ہے، یہ دونوں شام کے کسی شہر میں پیدا ہوئیں، پھر یہ شام کے دارالحکومت دمشق میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے لگیں، ان کا والد محمد عزت ماردینی ایک تیراک تھا، پھر اس نے اپنی ان دونوں بیٹیوں کو تیراکی سکھائی، یسریٰ ماردینی بہت جلد ایک کامیاب تیراک بن کر سامنے آنے لگی، اس نے مقامی سطح پر ہونے والے کئی مقابلے جیتے۔

پھر شام کی تیراکی کمیٹی نے یسریٰ کو سپورٹ کیا اور عالمی سطح پر یسریٰ نے ایک میڈل اپنے ملک شام کے نام کیا، اب یسریٰ اور اس کے والد کی نظریں اولمپکس مقابلوں پر تھیں۔ یسریٰ کا والد دن رات اپنی بیٹی پر محنت کرنے لگا، مگر اسے بدقسمتی سمجھیں یا یسریٰ کی خوش قسمتی کہ شام میں سول وار شروع ہوگئی، اور ایک دن دورانِ مقابلہ بمباری شروع ہوگئی، یسریٰ اور اس کے والدین بہت گھبرا گئے، آخر یسریٰ اور اس کی بہن سارا نے یورپ ہجرت کا فیصلہ کیا۔

اپنے والدین کو بڑی مشکل سے راضی کرنے کے بعد یہ دونوں بہنیں اپنے ایک کزن کے ساتھ لبنان پہنچیں وہاں سے ترکی آ گئیں، استنبول میں ایک انسانی سمگلر سے رابطہ کیا، اس نے باقی بیس لوگوں کے ساتھ ان تینوں کو ایک پرانی سی کشتی میں بٹھا کر سمندر کے حوالے کر دیا، کشتی بہت خستہ حالت میں تھی اور اس میں سوار افراد کی تعداد بہت زیادہ تھی، آخر ایک مقام ایسا آیا کہ سمندر کی تیز لہروں کا پانی کشتی میں بھرنے لگا، اب فیصلہ یہ کیا گیا کہ کشتی کا وزن کم کیا جائے۔

فالتو سامان سمندر میں پھینکنے کے باوجود بھی مزید وزن کم کرنا ضروری تھا، مگر ان سوار افراد میں سے کوئی بھلا کیسے سمندر میں اترتا؟ مگر ان دونوں ماہر تیراک بہنوں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی اور طاقتور اور بلند لہروں میں کشتی کے ساتھ کئی میل تک تیرتی آئیں، یوں یہ کشتی یورپ کے کسی کنارے جا لگی، ان دو بہنوں کی وجہ سے باقی تمام افراد کی جانیں بچ گئیں، پھر یہ پناہ گزین یورپ داخل ہوئے اور بہت سی سختیاں جھیل کر جرمنی پہنچے، انہیں پناہ گزین کیمپ میں رکھا گیا۔

یسریٰ کو اپنے باپ سے کیا وعدہ یاد تھا کہ وہ ایک دن اولمپک مقابلوں میں حصہ لے گی، اس نے جرمنی کے شہر برلن میں ایک ایسا سوئمنگ پول تلاش کیا جو لوگوں کو تیراکی سکھاتا تھا، وہاں یسریٰ کی ملاقات ایک کوچ سے ہوئی، کوچ اچھا انسان تھا اس نے یسریٰ کی صلاحیتیں دیکھ کر اس کی مدد کی اور پناہ گزین کی کیمپ سے نکال کر تیراکی ایسوسی ایشن کے دفتر میں ایک کمرہ رہائش کے لئے دیا۔

اب یسریٰ دوبارہ سے پریکٹس کرنے لگی مگر اسے کوچ نے بتایا کہ وہ شام کی ٹیم کی جانب سے نہیں کھیل سکتی کیوں کہ وہ جرمنی میں ایک پناہ گزین ہے، مگر یسریٰ نے کہا وہ جب بھی کھیلے گی اپنے ملک کی طرف سے کھیلے گی، ایک دن اعلان ہوا کہ پناہ گزین بھی اولمپک میں حصہ لے سکتے ہیں، یسریٰ نے شام کی جانب سے تیراکی کے مقابلے میں حصہ لیا، اور نہ صرف فتح اپنے نام کی بلکہ ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔

یسریٰ کی بہن سارا کو شروع سے تیراکی میں دلچسپی نہ تھی اس نے اپنی زندگی پناہ گزینوں کی خدمت اور انسانی حقوق کے نام کر دی، اور یسریٰ اب جرمنی کے شہر ہمبرگ میں مقیم ہے، اور عالمی سطح پر کھیل رہی ہے۔ یہ صرف فلم نہیں تھی بلکہ دو بہنوں کی ایک سچی کہانی ہے، آپ یسریٰ ماردینی اور سارا ماردینی کے نام گوگل میں سرچ کر کے دیکھ سکتے ہیں، ان دونوں بہنوں کے بارے تفصیلات بھی پڑھ سکتے ہیں۔

انسان کی زندگی بھی مصائب سے پُر ہے، نہ ختم ہونے والی مشکلات کی لہریں ہماری زندگی کی کشتی کو کئی بار ڈبونے کی کوشش کرتی رہتی ہیں، مگر انسان کی ہمت، حوصلہ اور دلیری ہی انسان کو تباہ ہونے سے بچاتی ہے، ہم کئی بار سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی بس اب ختم ہونے کو ہے مگر پھر اندھیروں میں ایک ایسی امید کی شمع جلتی ہے جو ہمیں پھر جینے کی آس دلا دیتی ہے، بس اگر جینا ہے تو مشکلات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑنا ہوتا ہے ڈر جانے والے بہت جلد ڈوب جاتے ہیں۔