گزر جاتے ہو تم تیزی سے اب جانے نہیں دیں گے
افق کے سرخ ماتھے پر شکن آنے نہیں دیں گے
بھلے اس میں چھپا ہے اپنا ماضی اور مستقبل
پھڑکتی دھڑکنوں کو کچھ نیا بھانے نہیں دیں گے
جو ماضی نے کیا بے حال مستقبل کو پھر بھی ہم
اسے ہر حال اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیں گے
اٹھا کے ساتھ اس کو بھی لے جائیں سائے کی خاطر
کسی دیوار کو رستے میں پھر آنے نہیں دیں گے
کبھی اس کی رکاوٹ سے یوں لیں گے کام خدمت کے
کبھی دیوار کے سائے کو گھٹ جانے نہیں دیں گے
یہ جیسے بھی ہیں جتنے بھی پرانے ہیں ہمارے ہیں
کبھی ہتھیار اب دشمن کو ہتھیانے نہیں دیں گے
اگر ہو ارضِ دل خونی درندوں کے جو ہاتھوں میں
کسی بلبل یا قمری کو لے میں گانے نہیں دیں گے
مہارت سے سنواریں گے ہم بھی تعبیر اِن کی پھر
یہ سارے خواب سستے میں تو بِک جانے نہیں دیں گے
سبق لے کر ہی ماضی سے دے خود کو حوصلہ احمد
یہ تجھ کو دوست کی بستی میں اب جانے نہیں دیں گے