بین الاقوامی تعلقات میں ایک انقلابی موڑ کے طور پر آج اسلامی جمہوریہ پاکستان اور مملکتِ سعودی عرب نے ایک تاریخی سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ (Agreement-SMDA trategic Mutual Defense) پر دستخط کیے ہیں، جو دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان دفاعی شراکت داری کو ایک نئے عہد میں داخل کرتا ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کی مشترکہ سلامتی کی ضمانت ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے کی تاریخی اور سفارتی اہمیت یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان گہرے تاریخی تعلقات کا تسلسل ہے، جو 1967ء میں ہونے والے پہلے دفاعی پروٹوکول اور 1982ء کے دفاعی معاہدے سے مستفید ہوتا ہوا آج ایک نئی جہت تک پہنچا ہے۔ دونوں ممالک کے سربراہان نے اس معاہدے پر دستخط کیے، جس سے اس کی اہمیت اور عزم کی مضبوطی واضح ہوتی ہے۔
دفاعی تعاون کے کلیدی پہلوؤں میں سب سے اہم باہمی دفاع کی ضمانت ہے، جس کے تحت کسی بھی ملک پر بیرونی حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور ہوگا، جس کے تحت دونوں فوجیں مشترکہ طور پر جوابی کارروائی کریں گی۔ یہ شق خطے میں جارحیت روکنے کے لیے ایک طاقت کا توازن باعث بنے گی۔ معاہدے کے تحت پاکستان حرمین شریفین کے دفاع میں سعودی عرب کا سرکاری شراکت دار بن گیا ہے۔ پاکستانی قوم نے اس موقع پر جذباتی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے معاہدے کو پاکستان کے لیے سعادت قرار دیا ہے۔
دنیا بھر کے تجزیہ کار اس معاہدے کو محض حرمین شریفین کے تحفظ تک محدود نہیں دیکھ رہے بلکہ اسے دونوں ممالک کے درمیان فوجی تربیت، مشترکہ مشقوں اور دفاعی صنعتی تعاون کو مزید وسعت دیے جانے کا آغاز قرار دے رہے ہیں، جس سے دونوں افواج کی صلاحیتیں مزید ہم آہنگ ہوں گی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ اور عرب ممالک بھی اسی طرح کے معاہدے کرتے نظر آ رہے ہیں جس سے نیٹو کی طرز پر مسلم ممالک کا ایک فوجی و دفاعی اتحاد بنتا نظر آ رہا ہے جس کی قیادت پاکستان کرے گا۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اس معاہدے کی تیاری اور کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی قیادت میں پاکستانی افواج نے حال ہی میں"آپریشن بنیان مرصوص" میں بھارت کے خلاف تاریخی کامیابی حاصل کی، جس نے پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر تسلیم کروایا۔ میری ذاتی سوچ یہ ہے کہ یہ فتح اکیلے ہندوستان پر نہیں تھی بلکہ اس لڑائی میں اسرائیل کو بھی شکست ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے بڑھتے ناپاک عزائم کو روکنے کے لیے عزت مآب محمد بن سلمان کی نظر انتخاب پاکستان پہ آ کے رکی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی سعودی قیادت کے ساتھ مؤثر سفارت کاری اور فوجی حکمت عملی نے اس معاہدے کو ممکن بنایا۔
علاقائی اور عالمی اثرات کے حوالے سے یہ معاہدہ ایک طرف اسرائیل کے شرپسندانہ، شیطانی کام اور خطے میں بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے، جسے عسکری ماہرین نے "خطے کے امن کے لیے خطرہ" قرار دیا ہے۔ بھارت نے حال ہی میں رافیل طیاروں کی اضافی خریداری کا اعلان کیا ہے، جس کے جواب میں یہ معاہدہ پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو مزید مضبوط بنائے گا۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان BECA معاہدہ (جس میں امریکہ بھارت کو سیٹلائٹ انٹیلی جنس فراہم کرتا ہے) کے بعد یہ معاہدہ پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کا اہم ذریعہ بنے گا۔ معاشی اور سفارتی فوائد کے لحاظ سے سعودی عرب کے ویڑن 2030ء کے تحت دفاعی خود انحصاری کو فروغ دیا جا رہا ہے، جس میں پاکستان فوجی تربیت اور دفاعی پیداوار میں اہم شراکت دار بن سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون میں اضافہ متوقع ہے، خاص طور پر پاکستان کے موجودہ سیلابی بحران کے دوران سعودی عرب کی حمایت اہم ہوگی۔
عوامی ردعمل اور حمایت کے حوالے سے پاکستانی قوم نے اس معاہدے کا پرجوش استقبال کیا ہے۔ سماجی میڈیا پر عوام نے Defender Defender of Haramain# اور Pakistan، KSA Brotherhood# جیسے ٹرینڈز کے ذریعے اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے بھی تقاریب منعقد کرکے خوشی کا اظہار کیا ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات کو سراہا ہے۔ مستقبل کے امکانات کے تحت یہ معاہدہ علاقائی اتحاد کو مضبوط بنانے کی طرف پہلا قدم ہے، جس کے تحت دیگر اسلامی ممالک بھی اس شراکت داری میں شامل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ حکمت عملی تیار کریں گے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یہ اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک طاقتور اقدام ہے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کی سلامتی، معاشی تعاون اور سفارتی شراکت داری کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا۔ اللہ تعالیٰ دونوں ممالک کی شراکت داری کو مزید کامیاب بنائے اور امت مسلمہ کی سلامتی کے لیے اسے ایک ذریعہ بنائے۔