پاکستان نے ایک مرتبہ پھر عالمی سفارتی محاذ پر ایک ایسی شاندار کامیابی حاصل کی ہے جس نے نہ صرف خطے کی سیاسی فضا کو متاثر کیا بلکہ عالمی طاقتوں کو بھی پاکستان کے موقف کی سنجیدگی اور حقیقت پسندی کا قائل کر دیا ہے۔ تیانجن میں ہونے والا شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا حالیہ سربراہی اجلاس اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک تاریخی واقعہ ثابت ہوا، جہاں بھارت کی تمام تر کوششوں کے باوجود پہلگام حملے کے الزامات کو اعلامیے کا حصہ نہیں بنایا گیا اور وزیراعظم نریندر مودی کو بالآخر ایسے اعلامیے پر دستخط کرنا پڑے جس میں پاکستان کے خلاف کسی الزام کو شامل نہیں کیا گیا۔ یہ امر سفارتکاری کی دنیا میں پاکستان کے لیے ایک بڑی جیت اور بھارت کے لیے ایک کھلی شکست کے مترادف ہے۔
بھارت جس اعتماد کے ساتھ پاکستان پر الزام تراشی کے بیانیے کو عالمی سطح پر پھیلانے کی کوشش کر رہا تھا، وہ بری طرح ناکام ہوا اور دنیا نے ایک بار پھر دیکھ لیا کہ پاکستان بغیر کسی لچکدار مصلحت کے اپنے موقف پر ثابت قدمی کے ساتھ کھڑا ہے اور ثبوتوں کے بغیر الزام تراشی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس کامیابی کے پیچھے ایک نہیں بلکہ کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں حکومت اور فوج کی ہم آہنگی، مؤثر سفارتی حکمت عملی، دوست ممالک کی غیر مشروط حمایت اور عالمی برادری کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات نمایاں ہیں۔
پہلگام حملے کے بعد بھارت نے روایتی طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی۔ یہ الزام کسی مستند ثبوت کے بغیر تھا اور اس کا مقصد صرف عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا تھا۔ بھارت نے اپنے موقف کو تقویت دینے کے لیے مختلف ممالک میں سفارتی وفود بھیجے، میڈیا پر بھرپور مہم چلائی اور عالمی اداروں میں پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان نے حقیقت پسندی اور سنجیدگی کے ساتھ ایک غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش کی اور دنیا کو باور کرایا کہ شواہد اور ثبوت کے بغیر الزام تراشی کی کوئی وقعت نہیں۔ یہی وہ نقطہ تھا جہاں عالمی طاقتوں نے بھارت کے بیانیے کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا۔ امریکا، روس اور چین جیسے ممالک نے بھارت کے موقف کی تائید کرنے کے بجائے پاکستان کے موقف کو اہمیت دی۔ خاص طور پر چین نے پاکستان کے ساتھ کھل کر تعاون کیا اور تیانجن اجلاس کے دوران واضح انداز میں پاکستان کی پوزیشن کا دفاع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے پاس اجلاس کے اعلامیے میں اپنے مؤقف کو شامل کروانے کا کوئی مؤثر راستہ باقی نہ رہا۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کی اس کامیابی کے پیچھے اس کی مربوط اور متوازن حکمت عملی کارفرما رہی۔ وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ چین میں جس شاندار انداز میں ان کا استقبال کیا گیا، وہ اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ چین پاکستان کو خطے میں ایک قابل اعتماد شراکت دار سمجھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارتی وزیراعظم کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی، جس نے بھارتی قیادت کی خفت کو مزید آشکار کیا۔ اسی طرح وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور دیگر اعلیٰ سطحی سفارتی وفود نے یورپ اور امریکا کے مختلف ممالک میں جا کر جس مؤثر انداز میں پاکستان کا موقف پیش کیا، وہ کامیابی کی بنیاد بنا۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ہونے والا دورہ لندن، واشنگٹن اور برسلز اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جس نے بھارت کے پروپیگنڈے کو بری طرح بے نقاب کر دیا۔
پاکستان کی اس سفارتی فتح کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس نے نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کے کردار کو اجاگر کیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا نے کھل کر اس بات کو تسلیم کیا کہ بھارت پہلگام حملے کو پاکستان سے جوڑنے کے لیے کوئی ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا۔ نیویارک ٹائمز اور بلومبرگ جیسے معتبر اداروں نے بھارت کے بیانیے کو غیر مؤثر قرار دیا۔ اس کے نتیجے میں بھارت کی ساکھ پر نہ صرف عالمی سطح پر دھچکا لگا بلکہ اس کے اپنے اندر بھی شدید تنقید سامنے آئی۔ بھارتی اپوزیشن اور میڈیا کے بعض حلقوں نے مودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خارجہ پالیسی میں یہ رویہ بھارت کو تنہا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے لیے یہ ایک ایسا موقع ہے جس نے دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے اور دہشت گردی کے کسی بھی الزام سے خود کو الگ رکھتا ہے۔
اس کامیابی کے پس منظر میں پاکستان کی ریاستی اداروں کے درمیان غیر معمولی ہم آہنگی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے بیرونی دورے اور یکساں موقف نے یہ پیغام دیا کہ پاکستان کے سول اور عسکری ادارے ایک صفحے پر ہیں۔ یہ ہم آہنگی نہ صرف داخلی استحکام کے لیے ضروری ہے بلکہ عالمی برادری کے اعتماد کو بھی بڑھاتی ہے۔ اسی مربوط حکمت عملی نے دنیا کو باور کرایا کہ پاکستان محض الفاظ نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ ہے۔
اس کامیابی کے خطے پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ بھارت کے لیے یہ ایک سبق ہے کہ الزام تراشی اور پروپیگنڈے کی سیاست اب مزید کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پاکستان نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ جارحیت کے جواب میں جارحیت نہیں بلکہ حقیقت پسندی اور حکمت عملی کے ذریعے مؤثر جواب دیتا ہے۔ البتہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ بھارت اپنی خفت مٹانے کے لیے مزید جارحانہ رویہ اختیار کرے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی سفارتی حکمت عملی کو مزید مستحکم بنائے اور دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا کرے۔
یہ کامیابی محض ایک وقتی اعزاز نہیں بلکہ مستقبل میں پاکستان کے لیے نئے معاشی اور سفارتی مواقع بھی پیدا کرے گی۔ امریکا کے ساتھ تاریخی تجارتی معاہدے کی خبریں، جس میں توانائی کے شعبے میں تعاون اور تیل کے ذخائر کی ترقی شامل ہے، پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ اسی طرح چین کی جانب سے سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر آمادگی ظاہر کرنا پاکستان کے لیے خطے میں ایک بڑے اقتصادی مرکز کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ ترکی اور آذربائیجان جیسے ممالک کی حمایت اور عوامی سطح پر پاکستان کے حق میں مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کے موقف کو نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی پذیرائی مل رہی ہے۔
پاکستان کی یہ کامیابی اس امر کی بھی غمازی کرتی ہے کہ سچائی اور حقیقت پسندی ہمیشہ پروپیگنڈے پر غالب رہتی ہے۔ بھارت نے شور شرابے اور الزام تراشی کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش کی، لیکن دنیا نے شواہد اور دلائل کی بنیاد پر فیصلہ کیا۔ یہی فرق ایک ذمہ دار اور غیر ذمہ دار ریاست کے رویے میں نمایاں ہوتا ہے۔ پاکستان نے ثابت کیا کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ تعلقات میں شفافیت اور سنجیدگی کا قائل ہے، جبکہ بھارت کی بے بنیاد الزام تراشی نے اس کی اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔
اس کامیابی کے باوجود پاکستان کو مستقبل میں کئی سفارتی چیلنجز درپیش رہیں گے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی برقرار رہنے کا امکان ہے اور ممکن ہے کہ بھارت اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے مزید جارحیت کا سہارا لے۔ لیکن پاکستان نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ نہ صرف عسکری سطح پر بلکہ سفارتی میدان میں بھی ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کامیابی نے دنیا کے سامنے پاکستان کی حیثیت کو ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر مستحکم کیا ہے۔
تیانجن اجلاس میں پاکستان کی سفارتی کامیابی نہ صرف بھارت کی ناکامی کا اعلان ہے بلکہ خطے میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا بھی ثبوت ہے۔ یہ کامیابی اس امر کا مظہر ہے کہ اتحاد، حقیقت پسندی اور حکمت عملی کے ذریعے کوئی بھی ریاست عالمی سفارتکاری میں اپنی شناخت منوا سکتی ہے۔ پاکستان نے نہ صرف اپنے موقف کو منوایا بلکہ دنیا کو یہ بھی باور کرایا کہ وہ امن کا خواہاں ہے اور خطے میں استحکام کا ضامن بن سکتا ہے۔ آنے والی نسلوں کے لیے یہ ایک سبق ہے کہ سچائی اور مضبوط عزم کے ساتھ دنیا کی بڑی سے بڑی رکاوٹ کو بھی عبور کیا جا سکتا ہے۔