1. ہوم/
  2. غزل/
  3. حامد عتیق سرور/
  4. کمال یہ ہے

کمال یہ ہے

نظر سے جاناں کی، دیگراں کو، چھپا کے رکھنا، کمال یہ ہے
خبر نکلتے ہی سر کو قدموں میں جا کے رکھنا، کمال یہ ہے

تمہاری زلفوں کی زیب و زینت تو صرف کثرت کا معجزہ ہے
کہ چار بالوں سے سر کی وسعت چھپا کے رکھنا کمال یہ ہے

وہ جس نے اپنی چتر کلا سے زمانے بھر کو نچا دیا تھا
پھر اس کو بیگم کا انگلیوں پر نچا کے رکھنا، کمال یہ ہے

اگرچہ اس نے کبھی محبت کو در خورِ اعتنا نہ سمجھا
ہمیں جلانے کو، روز دشمن، بلا کے رکھنا، کمال یہ ہے

یہ مرغیوں کے بریدہ جسموں کے غسلِ میت کا گرم پانی
پھر اس کو یخنی کا نام دے کر، پلا کے رکھنا، کمال یہ ہے

فرشتے کاندھے پہ بیٹھ، دن بھر کا حال لکھیں کمال کیسا؟
دہن میں گن کر، سبھی حرارے، غذا کے رکھنا، کمال یہ ہے

وہی جو قدرت چلا رہا ہے، اسے معیشت بھی سونپ دیں گے
اسی گماں پہ، دبنگ ڈالر، گرا کے رکھنا، کمال یہ ہے