1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. پاکستانی نظام حکومت

پاکستانی نظام حکومت

جمہوریت کی تاریخ کا تعلق قدیم یونان سے ملتا ہے۔ جہاں حکومت کرنا امراء کا حق سمجھاجاتا تھا۔ سمجھا جاتا تھا کہ امراء میں ہی ایسے وصف موجود ہوتے ہیں جو حکمرانی کے لئے لازم ہیں۔ چرچ کو معاشرے میں بنیادی مقام حاصل تھا۔ معاشی ترقی کے نتیجے میں 1810 میں پہلا تعلیمی ادارہ "اکیڈمی" کے نام سے ایتھنسز میں قائم کیا گیا۔ اسے پہلی یونیورسٹی بھی کہا جاسکتا ہے۔

اس کا انتظام طالب علموں کے ذمہ ہوتا تھا۔ طالب علم ہی یونیورسٹی کے لئے جگہ کرایہ پرلیتے تھے اور کرایہ ادا کرتے تھے۔ استاد کی تنخواہ کا انتظام بھی طالب علم کیا کرتے تھے۔ استاد رخصت لینے سے قبل طالب علموں کی اجازت کا طالب ہوتا تھا۔ اس ابتدائی "اکیڈمی" میں بھی چرچ کی حکمرانی تھی تاہم تعلیمی نظام میں ہیومینٹیز مضامین کی شمولیت سے چرچ کا زور کم ہونے لگااور حکمرانی کو امراء سے منسوب کرنے کی روایت بھی کمزور ہوتی گئی۔

طرز حکمرانی کو عاقل اور قابل ذہنوں سے منسوب کرنے کے لئے پہلا باقاعدہ نظام چین میں قائم کیا گیا۔ مقابلے کے امتحان کی قدیم تاریخ ہمیں چین سے ملتی ہے۔ برطانیہ نے برصغیر پر قابض ہوکر یہاں انڈین سول سروسز یعنی آئی سی ایس کا نظام قائم کیا۔ ابتدا میں اس کی کم سے کم عمر 20 سال رکھی گئی تھی جسے کم کرکے 18 سال کردیا گیا۔ انڈین سول سرونٹس کے برطانوی افسران کا کام برصغیر کے لئے قوانین مرتب کرنا تھا۔ ان کے مرتب کردہ اکثر قوانین اب بھی ہندوستان اور پاکستان میں نافذ ہے۔

انڈین سول سرونٹس کے برطانوی افسران کی ٹریننگ میں خاص طور پر ہندوستانیوں پر حکمرانی کرنا سیکھایا جاتا تھا۔ انہیں گھوڑسواری کی خاص تربیت بھی دی جاتی تھی جس کا مقصد ہندوستانیوں کی لگام کھینچے رکھنا ہوتا تھا۔ یہ حکمران آپس میں گروپس کی صورت میں نظام پر قابض رہتے تھے۔ اپنے ماتحت عملے کو نااہل سمجھنا، انہیں الجھا کر رکھنا اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا ان افسران کی خاص مہارت تھی۔ اس طرح انگلستان نے ہندوستان میں ایک مضبوط انتظامی نظام قائم کیا اور برصغیر پر قابض ہوگیا۔

پہلی جنگ عظیم جولائی 1914 سے نومبر 1918 تک لڑی گئی۔ جس کے بعد دنیا کا معاشی نظام شدید کساد بازاری کا شکار ہوا۔ اسی کساد بازاری کے دوران ستمبر 1939 میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی۔ ستمبر 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے اہتمام کے ساتھ ہی طاقت کا مرکز بدل گیا۔ دنیا پر کالونیل راج کرنے والا انگلستان بھی شدید معاشی بدحالی کا شکار تھا۔ برطانیہ کے پاس ایکسپورٹ کے پیسے ختم ہوگئے، یہاں تک کہ برطانیہ کے پاس بنیادی خوراک خریدنے تک کے پیسے نہیں تھے۔ دوسری جنگیں عظیم شروع ہونے کے ساتھ ہی برطانیہ نے اپنے بہت سے قومی اداروں کو ریاستی تحویل میں لے لیا تھا اور ان کا سارا بجٹ یا آمدن جنگ کےمقاصد میں استعمال ہونے لگا۔

دوسری عالمی جنگ سے پہلے امریکہ اپنے اتحادیوں کو جنگ کی صورت میں جنگی سازوسامان فراہم کرتا تھا لیکن اس دفعہ امریکہ نے برطانیہ کے لئے قانون کو بدلا اور برطانیہ کو جنگی سازوسامان کیش پر حاصل کرنا پڑتا تھا۔ جنگ کے اخراجات کی وجہ سے برطانیہ کا سرکاری بینک دیوالیہ ہوچکا تھا، ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا۔ یہ وہی دور تھا جب برطانیہ کے زیرانتظام کالونیل علاقوں میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑ رہی تھی۔ ان تحریکوں کی بدولت نا صرف پاکستان اور ہندوستان کو آزادی ملی بلکہ برطانیہ کے زیر تسلط بہت سے علاقوں کو آزاد کیا گیا۔ تاریخ کے مشاہدے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان ممالک کی آزادی میں زیادہ اہم برطانیہ کی معاشی صورتحال تھی۔

تقسیم ہند کے بعد پاکستان کا نظام چلانے کی ذمہ داری جن اشخاص کے سپرد تھی وہ ہندوستان چھوڑ کرپاکستان آئے تھے۔ ان کا زیادہ تر تعلق ہندوستانی علاقوں یوپی اور سی پی یا بہار سے تھا اور یہ لوگ ان ہی علاقوں کے انداز حکمرانی سے واقف تھے۔ پاکستان میں جو علاقے ان کے زیر انتظام آئے انہیں یہاں کے لوگوں کے طرز زندگی اور مسائل سے آگاہی نہیں تھی۔ پاکستان میں شامل علاقوں میں صرف پنجاب، سندھ اور بنگال کے کچھ علاقے جمہوری نظام سے واقف تھے جبکہ بلوچستان اور شمال مشرقی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختوخواہ) میں طرز حکمرانی قبائلی یا قدیم روایات کی مرہونے منت تھی۔ عام عوام کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نئے انتظامی ذمہ دار بھی اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے پریشان تھے اور انہوں نے سیاسی نظام "جیسا ہے جہاں ہے" کی بنیاد پر چلنے دیا اور اپنی بنیادیں مضبوط کرنے لگے۔

سیاسی حکمران نظام حکومت پر قبصہ کرنے کے لئے بیوروکریٹس کی طرف دیکھا کرتے تھے اور تاج برطانیہ کے بعد یہ پہلی دفعہ تھا کہ بیوکریٹس کو محسوس کروایا گیا کہ ان کے بغیر مملکت کو نہیں چلایا جاسکتا لیکن آسائشوں کا مرکز اب بھی سیاسی نظا م ہی تھا۔ جہاں سیاسی حکومت اور بیوکریٹس کے دوران معاملات طے ہونے میں جمود آتا تو تیسری طاقت کو آواز دی جاتی۔ یہ سیاست دان اور بیوروکریٹس ہی تھے جن کی بدولت تیسری طاقت میں اقتدار تک پہنچنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ یہ بیوروکریسی ہی تھی جن کے مشوروں کی بدولت سکندر مرزا نے آئین کو معطل کیا اور قومی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل کی اور بیوروکریسی کے ساتھ طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لئے اقتدار آرمی چیف ایوب خان کے سپرد کردیا۔

یہاں سے ایک کہانی شروع ہوتی ہے جو ایک جیسی کہانیوں کو جنم دیتی دیتی ایسے معاشرے کی تشکیل کرگئی جہاں قانون صرف کمزور کے لئے رہ گیا۔ ایک خطے زمین کو مملکت قرار دینے کے بعد اس کے سیاسی نظام کو چلانے کے لئے بیوروکریسی کو کلیدی مقام حاصل ہوتا ہے۔ جنہیں خود پر بوجھ ڈال کر نظام کی بہتری کے لئے عوام کی شہ رگ تک پہنچنا ہوتا ہے۔ بیوروکریسی عوام اور سیاسی حکومت کے درمیان پل کا کام کرتی ہے۔ لیکن بیوروکریسی کا وہ نظام جو تاج برطانیہ نے انڈین سول سروسز کی صورت میں برصغیر پر نافذ کیا تھا، اسے چند الفاظ اور سلیبس کی چند تبدیلیوں کے ساتھ پاکستان میں نافذ کردیا گیا۔ آئی سی ایس کا بنیادی مقصد حاکم قوم کا محکموم قوم پر مضبوط حکومت قائم کرنا تھا۔ پاکستان بن جانے کے بعد بظاہر حاکم اور محکوم کا فرق مٹ چکا تھا لیکن اس کے باوجود سول سروسز کے نظام میں تبدیلی کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔

آپ جمہوری نظام کے اندر جس مرضی شعبہ کا مشاہدہ کریں، آپ کو محسوس ہوگا کہ ہر شعبہ تنزلی شکار ہے۔ ہمارا نظام آج تک قوم کی اتنی اخلاقی تربیت بھی نہیں کرسکا کہ ہم لائنز بنانا سیکھ جاتے اور آٹے کے حصول میں بارہ لوگوں کو جان سے ہاتھ نہ دھونا پڑتا۔ ہمیں آج بھی اپنی قوم کو ٹریفک اشاروں پر کھڑا کرنے کے لئے سیف سٹی کے کیمروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ہمارا نظام جب اخلاقی تربیت کرنے سے قاصر ہے تو یہ بنیادی ضروریات زندگی کس طرح فراہم کرسکتا ہے؟

پچھلے کچھ سالوں سے بارشوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے ضائع ہونے والا پانی ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ آئندہ کھیتی باری اور پینے کے لئے پانی دستیاب نہیں ہوگا۔ ہمیں یہ بھی بتارہا ہے کہ ہم قحط سالی کے اوپر کھڑے ہیں۔ اگر آج بھی جماعتی وابستگیوں سے نکل کر قومی حکومت کا نہیں سوچا گیا تو ہمیں ایک دفعہ قحط زدہ افریقی ممالک کی وڈیوز کو دیکھ لینا چاہیے۔ قومی حکومت کے لئے عام عوام کومل کر سوچنا ہوگا کیونکہ سیاسی جماعتوں کے مفادات کا تعلق نہ کبھی پہلے پاکستان سے تھا اور نہ آئندہ ہوگا۔