1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. می ٹو

می ٹو

می ٹو کی تحریک یا مہم کا باقاعدہ آغاز امریکہ سے کیا گیا تھاجو جلد ہی عالمی مقبولیت حاصل کرگئی۔ اس تحریک کا مقصد خواتین کے خلاف جنسی ہراسیت اور تشدد جیسے مظالم کی نشاندہی کرنا تھا جن کا سامنا خواتین کو عام طور پر دفتری ماحول میں کرنا پڑتا ہے۔ اس تحریک کو 2017 میں مقبولیت حاصل ہوئی جب اس نعرے کے ساتھ "ہیش ٹیگ" کا استعمال کیا گیا۔ یہ طریقہ اپنی معلومات کو دوسرے تک پہنچانے کے لئے آسان رسائی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جب سوشل میڈیا کی دنیا میں کسی بات یا معلومات کے ساتھ "ہیش ٹیگ" کا استعمال کیاجاتا ہے تو اس کو تلاش کرنا، اس تک رسائی اور اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ "ہیش ٹیگ" ورلڈ وائیڈ ویب کی دنیا کی ایک ایسی استعلا ہے جس کا ڈیٹا اور معلومات علیحدہ سے مرتب ہوتی ہے اور یوں جب یہ باقی معلومات کے ساتھ جمع نہیں ہوتی تو اس تک رسائی آسان ہوجاتی ہے۔ اس کالم کے نام میں می ٹو کے ساتھ جو نشان ہے اسے انٹرنیٹ کی دنیا میں "ہیش ٹیگ" کہا جاتا ہے۔ اس کو کسی لفظ کے شروع یا آخر میں بغیر اسپیس کے استعمال کیا جائے تو اس کا عمل بدل جاتا ہے اور یہ آسان رسائی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

"ہیش ٹیگ" کے بہت زیادہ استعمال کے بعد اسے آکسفورڈ ڈکشنری کے انگلش آڈیشن میں جون 2014 میں شامل کرلیا گیا۔ "می ٹو" کا استعمال خاص تعریف کے حوالے سے پہلی دفعہ 2006 میں کیا گیا۔ اس کو استعمال کرنے والی "تارانا برک" تھی جوکہ ایک سماجی کارکن ہے اور ان کا تعلق افریکن امریکن نسل سے ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے بہت کام کیا اور ان کو اعزازی طور پر ایک امریکن این جی او "گرلز فار جنٹر ایکونٹی" کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس تنظیم کا مقصد خواتین کے ساتھ دہرے رویے کا سدباب کرناہے۔ "تارانا برک" نے یہ ٹویٹ ایک 13 سال کی بچی کی کہانی سے متاثر ہوکر کیا جو کہ جنسی زیادتی کا شکار ہوئی تھی اور بہت عرصے تک اس کے متعلق اس کے والدین کو بھی معلوم نہیں تھا۔ "می ٹو" کی ٹویٹ کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ تاہم اس تحریک کو دام عروج "ایسا ملانو" سے ملا۔ یہ ایک امریکن اداکارہ، پروڈیوسر اور سنگر ہے۔ ان کے ٹویٹ کے ساتھ خواتین کو حوصلہ ملا اور وہ اپنے ساتھ ہونے والی ذیادتیوں کے بارے میں بات کرنے لگی کیونکہ وہ انصاف کی خواہشمند تھی۔ اس ٹویٹ کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا یہ ان بے شمار عورتوں کی دبی ہوئی آواز کو دوبارہ بلند کرنے کا ذریعہ بناء جو اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی زیادتی کا شکار ہوئی تھی۔ " ایسا ملانو" کے ٹویٹ کے بیس منٹ بعد ہی تقریبا دس ہزار لائق اور کمنٹ موصول ہوچکے تھے۔ اس ٹویٹ کا جواب دینے والوں میں ہالی وڈ کے مشہور ترین اداکارایں بھی شامل تھی جن میں " گوینتھ بالڈو، ایشلے جڈ، جنیفر لارنس اور اماتھر من "شامل ہے۔ اس مہم سے معلوم ہوا کہ دنیا میں خواتین کی کل آبادی کا تیسرا حصہ کسی نہ کسی طرح جنسی زیادتی کا شکار ہے۔ صرف امریکہ جیسے باشعور اور تعلیم یافتہ معاشرے میں 54٪ خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہے اور ا ن میں سے 95٪ خواتین کو یقین ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے خلاف کسی قسم کا کوئی قانونی اقدام نہیں کیا جاتا۔ اتنی بڑی تعداد میں متاثر ہ خواتین کو انصاف دینے کی غرض سے ایک تحریک "ٹائمز آپ" کے نام سے شروع ہوئی اس کا آغاز یکم جنوری 2018 سے کیا گیا۔ ابتدائی طور پر اس کو 20 ملین ڈالر سے قائم کیا گیا اور تقریبا 200 وکیل رفاحی بنیادوں پر اپنی سروسز فراہم کرنے کے لئے بھی موجود ہے۔ " ایسا ملانو" کا کہنا ہے کہ "می ٹو" کے ذریعے حاصل کئے گئے اعداد و شمار سے اس بات کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ معاشرے میں خواتین کے ساتھ کس حد تک امتیازی سلوک کیا جارہا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس "ٹائمز آپ" کو اس وقت تک کامیاب نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ مردوں کی ایک اچھی تعداد خواتین کے ساتھ کھڑی نہ ہو۔ "می ٹو" کی تحریک میں ترتیب کے حوالے سے جن ممالک کی خواتین نے سب سے زیادہ ٹویٹ کی، ان میں امریکہ، انڈیا، فرانس، چین، جاپان اور اٹلی کی خواتین شامل ہے۔

اقوام عالم میں خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی ایک چھوٹی سی جھلک "می ٹو" کے ذریعے نظر آتی ہے۔ اپنے ساتھ جنسی ہراسیت اور تشدد کا رونا رونے والی خواتین امریکی معاشرے کے ہر شعبے سے تعلق رکھتی ہے ان میں قانون نافذ کرنے سے لر کر حکومتی ایوان تک شامل ہے یہاں تک کہ بعض مذہبی خواتین بھی اس ظلم کا نشانہ بنی۔ ان میں چھوٹی عمر سے لر کر عمر رسیدہ خواتین بھی شامل ہے۔ یہ وہ عدادوشمار ہے جو کہ رپورٹ ہوچکے اور اتنی ہی تعداد ان کیسوں کی ہے جوکہ رپورٹ نہیں ہوئے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ عالمی سطح پر ہر تین میں سے ایک خاتون جنسی زیادتی کا شکار ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں خواتین کی حفاظت کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ وہاں نہ صرف قانون موجود ہے بلکہ ان کی کارکردگی ہمارے سسٹم سے بہت اچھی ہے۔ میں ان قوانین کے حوالے سے ایک تفصیلی کالم "ہراسیت" کے نام سے لکھ چکا ہوں۔ اقوام مغرب اور امریکہ یہ وہ ممالک ہے جن کو ہمارے ہاں "رول ماڈل" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو میں ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل خاص طور پر ان کے نظام سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ ان ممالک میں خواتین کافی آزاد خیال ہے لیکن اس کے باوجود خواتین خود کو اس ماحول میں محفوظ محسوس نہیں کرتی جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ عمل ان کی آزاد خیالی سے بھی آگے کی بات ہے۔ خواتین کے ساتھ اس رویے کی وجہ ہمیں تاریخ سے مل جاتی ہے لیکن تاریخ کے ابواب میں جھانکنے سے یہ کالم ایک کتاب کی شکل اختیار کرجائے گا۔ چنانچہ میں چند لائنوں میں بات کو بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی بنیادی وجہ مغربی معاشروں سے مذہب کا انخلا ہے ان لوگوں پر ہفتہ میں صرف ایک دن (اتوار عیسائیوں کا مذہبی دن ) چرچ جاکر عبادت کرنا بھی بہت بھاری گزرتا ہے۔ مغربی تعلیمی نظام میں رفتہ رفتہ مذہب کو نکالا گیا اور وہاں اس بات کا چرچہ ہوا کہ مذہب فرد کا ذاتی مسئلہ ہے، ریاست یا معاشرہ اس کے بارے میں اس سے بازپرس نہیں کرسکتا۔ اس کی دلیل یہ بیان کی گئی کہ مرد اور عورت برابر ہے اور مرد جو کام کرنے کی طاقت رکھتا ہے عورتیں بھی وہ کام کرسکتی ہے۔ یہاں والدین کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ بچوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے ورنہ ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔ معاشرے میں مردوں کے برابر عورتوں کو ملازمتیں فراہم کی گئی۔ میڈیا کی یہ بیہودا تکنیک جس میں اشتہارات کے ذریعے ہر چیز کو لیڈی ماڈلز کے ذریعے فروخت کروایا جاتا ہے، یہ بھی مغرب کی عطاء کردا ہے۔ پھر ان لوگوں نے صبح صبح مارننگ شوز کا آغاز کیا جو کہ خاص طور پر خواتین کی ہوسٹنگ میں ہوتا تھا جس کی وجہ ان کے ماہرین نے یہ بیان کی کہ مردوں کے ذہنوں میں عورتوں کے احساس سے ایک خوش کن مسرت پیدا ہوتی ہے چنانچہ صبح صبح عورتوں کو دیکھنے سے سارا دن یہ اپنے کام خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکتے ہیں۔ ان شوز میں خواتین کو خاص طور پر تیار کروایا جاتا تھا اور ان کو نئی نئی چیزیں کرنے کا ٹاسک ملتا تھا۔ پھر یہاں کے ڈراموں میں صرف محبت کو موضوع بنایا گیا۔ محبت کو حق کہا گیا اور اس کے خلاف ہر چیز کو باطل قرار دیا گیا۔ گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کی بنیاد بھی اسی دور میں پڑی اور اس سب کے پیچھے صرف ایک سوچ تھی کہ مرد اور عورت برابر ہے۔ اوپر بیان کی گئی چند وجوہات اس فحاشی کے طوفان کی شروعات تھی جس کا رونا اب "می ٹو" میں رویا جارہا ہے۔ یہ تمام چیزیں ہمارے معاشرے میں بھی موجود ہے اور آپ اس کی رفتار کا موازنہ روشنی کی رفتار سے کر سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں موم بتی مافیاء نے اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں ایک تقریب منعقد کی جس کا سلوگن تھا " مائے باڈی مائے رول" یہ موم بتی مافیاء اب بہت آگے کا سوچ رہی ہے جس کی بہت ابتدائی شکل کے طور پر میڈیا کے ہر شعبے میں خواتین کے لباس میں سے شلور قمیص کو ختم کیا جارہا ہے جس کو آپ کسی بھی چینل کر لگا کر آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں۔ تمام چینلز پر مغربی ایجنڈے پر عمل کرنے والی مارننگ شوز کی، اسلام سے تنگ، ہوسٹنگ کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے خواتین اپنی آزادخیالی کا دفاع عام طور پر ان الفاظ سے کرتی ہے کہ " اگر تمام حالات کی ذمہ دار ہم ہے تو ان بچیوں کا کیا قصور ہے جن کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہے" خواتین کے لباس اور ان کی حرکات سے فحاشی کا کیا تعلق ہے، اس کا جواب "سیکس سائیکالوجی" میں مل جاتا ہے لیکن یہ ایک مکمل باب ہے جس کو کسی اور کالم میں تفصیل سے بیان کروں گا۔ میں آخر میں "می ٹو" کے متعلق صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانا ایک اچھا عمل ہے اور یہ آپ کا حق بھی ہے لیکن اس کے متعلقہ ٹویٹ کرنے والی اداکاراوں کی تصویریں آپ انٹرنیٹ پر چیک کریں، ان کی فلموں کی لسٹ چیک کریں اور یہ جواب حاصل کرنے کی کوشش کریں کہ کیا ان کو یہ ٹویٹ کرنے کا حق حاصل تھا۔ آگ پر تیل پھینکنے کے بعد، آگ کے پھیلاؤکا رونا رونا بیکار ہوتا ہے۔

آخر میں چند لائنز موم بتی مافیاء کے لئے، آپ اسلام سے محبت کریں یا نفرت لیکن حقیقت یہ ہے آپ کے ماں باپ نے آپ کو اسلام پر پیدا کیا اور آپ کو مرنے کے بعد اسلام کے سلیبس پر ہی امتحان دینا ہے۔ آپ پردے کو خود سے دور کرنے کے لئے سو دلیلیں پیش کریں، آپ دل کے پردے کو اہم سمجھیں یا خود سے زیادہ مردوں کی نظروں کو نیچا رکھنے کی بات کریں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب پردے کا حکم نازل ہوا تو اس وقت بنی پاکﷺ موجود تھے اور آپ کے تربیت یافتہ کائنات کے سب سے پاک اور افضل اصحابہ اکرام بھی موجود تھے اور ان پاک اور مقدس معاشرے کے باوجود اللہ نے مسلمان خواتین کو پردے کا حکم دیا۔ خواتین بھی ایسی جن کی پاک دامنی کی گواہی تاریخ سے ملتی ہے۔ ہم اگر اسلام پر عمل کرتے ہوئے، اپنے معاشرے کو آنے والی نسلوں کے لئے قابل برداش بنا لے تو بہتر ہے ورنہ اللہ ہر چیز سے بےنیاز ہے۔