1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. اردو کی مظلومیت

اردو کی مظلومیت

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 21 فردری کو قومی یا مادری زبان کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد اپنی زبان اور اس میں موجود ثقافت سے محبت کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ آپ گوگل کے سرچ انجن پر جائیں اور وہاں اس دن کی تاریخی روایت کو تلاش کریں۔ آپ کو وہاں موجود کالم کی ہیڈنگ سے معلوم ہوگا کہ اس دن کو منانے کے پیچھے بنگالی زبان کی تحریک شامل ہے۔ لیکن اس کی بنیاد میں تاریخی حقائق کو کس طرح مسخ کیا گیا اس کا علم بہت ہی کم لوگ رکھتے ہیں۔

میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ کو ماضی میں لے جاتا ہوں، یہ دن ہمیں ہماری تاریخ کے ماضی میں لے جاتا ہے۔ یہ دن 21 فروری 1952 کا دن تھا جب ڈھاکہ میں اردو کے حق میں نکالی جانے والی ایک ریلی پر پولیس نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں چار طالب علم مارے گئے تھے۔ یہ طالب علم پر امن احتجاج کررہے تھے کہ اردو کو پاکستان میں واحد قومی زبان کے طور پر نافذ رہنے دیا جائے جس کا اطلاق تمام پاکستان (مغرب اور مشرق) پر مجموعی طور پر کیا گیا تھا۔ 21 فردری 1952 کے اس حادثے کی وجہ بنگالی طالب علموں کے مظاہرے تھے، جس میں یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ بنگالی کو قومی زبان کے طور پر نافذ کیا جائے کیونکہ پاکستانیوں کی زیادہ تعداد بنگالی قومیت پر مبنی ہے لہذا اس زبان کا قومی اطلاق بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم محمد علی جناح، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل، اس بات کا اعلان واضح الفاظ میں کرچکے تھے کہ اردو کے علاوہ کوئی دوسری زبان قومی نہیں ہوسکتی۔ تاہم بنگالی قومیت کے حامل لیڈر جناح کے اس فیصلے سے مطمئن نہیں تھے اور اس فیصلے کو لے کر ان میں بےچینی پائی جاتی تھی۔ تاہم انہوں نے قائداعظم سے دوبارہ اس بارے میں کبھی مطالبہ نہیں کیا لیکن وہ اپنے حلقوں میں اس بارے میں آگاہی اور بےچینی پھیلاتے نطر آتے تھے۔

11 ستمبر 1948 کوقائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد خواجہ نظام الدین کو پاکستان کا دوسرا گورنر جنرل تعینات کیا گیا جو کہ بنگالی قومیت رکھتے تھے۔ ان کی تعیناتی کے بعد بنگالیوں میں اس بات کی امید پھر سے پیدا ہوگئی تھی کہ اب بنگالی کو بھی قومی زبان کے طور پر نافذ کر لیا جائے گا۔ تاہم جنوری 1952 میں خواجہ نظام الدین نے اپنے ایک خطاب میں قائد اعظم کے وژن کی ایک بار پھر سے بات کی اور اردو کو ہی قومی زبان کے طور پر پسند کیا۔ اس اعلان نے بنگالیوں کو اکسادیا اور انہوں نے بنگالی کو قومی زبان کے طور پر نافذ کرنے کے لئے مظاہرے شروع کردیئے جبکہ دوسری طرف ان کے مقابلے میں اردو کے حق میں بھی مظاہرے شروع تھے۔

بنگالیوں نے اپنی تحریک کو ایک نئی شکل دینے کی غرض سے 31 جنوری 1952 کو ایک کمیٹی تشکیل دی جس کی قیادت مولانا عبدالحمید باشانی کر رہے تھے، جس کے تحت باقاعدہ اور منظم مظاہرے ہونے لگے۔ اس سلسلے میں ایک عظیم جلسے کی کال 21 فروری کو دی گئی جو بعدازاں پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن قرار پایا۔ دوسری طرف اس جلسے کو ناکام بنانے کے لئے حکومت نے ڈھاکہ میں کرفیو لگا رکھا تھا جس کے تحت کسی بھی جگہ پر چار سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی تھی۔ ایک طرف تو بنگالی زبان کے حق میں مظاہرے جاری تھے تو دوسری طرف اردو کے حق میں بھی جلسے ہورہے تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں بھی دونوں قسم کے مظاہروں کی تیاری ہورہی تھی اور طالب علم جمع ہونا شروع ہوئے جس پر پولیس نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں چار طالب علم موقع پر مارے گئے جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ پولیس نے گولی جس ریلی پر پلائی یہ اردو کے حق میں نکلی تھی تاہم خبر یہ پھیلائی گئی کہ بنگالی زبان کے حق میں نکلنے والی ریلی پر حکومت نے طاقت کا بےدریغ استعمال کیا جس کے نتیجے میں چار طالب علم مارے گئے۔ اس واقعہ نے مظاہرین کو مزید طیش دلوادیا اور مظاہرے ڈھاکہ کے طول و عرض میں پھیل گئے۔

بعدازاں حکومت پاکستان نے 1956 میں بنگالی زبان کو دوسری قومی زبان کے طور پر نافذ کردیا لیکن اس سے پہلے جانی نقصان ہوچکا تھا۔ تاہم اس خبر کا غلط رنگ تاریخ پر اس قدر پکا تھا کہ یہ دن قیام بنگلہ دیش کے بعد ہر سال قومی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ 1999 میں پہلی بار یونیسکو نے اس دن کو بنگالی زبان کی اہمیت کے طور پر منایا جبکہ 2008 میں اس دن کو اقوام متحدہ نے بھی قبول کرلیا۔ تاریخ کو اس طرح مسخ کیا گیا کہ تاریخ اس دن کو بنگالی مظلومیت کے طور پر جانتی ہیں۔

اردو کے ساتھ کی جانے والی یہ زیادتی کوئی نئی نہیں تھی بلکہ اس کی تاریخ پرانی ہے۔ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے اردو زبان کو مسلمانوں کی نمائندہ زبان کے طور پر جانا جاتا تھا۔ مسلمانوں کی ثقافت اور مذہبی رسم و رواج کا بہت بڑا ذخیرہ اردو زبان میں موجود تھا، مسلمانوں کے بزرگوں نے اس زبان کی ترویج کے لئے بہت سے اقدامات کئے۔ بہت سے اردو اخبارات اور رسائل کا اجرا بھی کیا گیا۔ ہندوستان میں اسلام کی آمد جن اسلاف کی بدولت تھی ان کی زبان عربی، فارسی اور ترکی تھی یہی وجہ ہے کہ اردو زبان میں ان زبانوں کے الفاظ کا بہت سارا ذخیرہ موجود ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے بھی اردو زبان کے خلاف بہت ساری تحریکیں ہندوؤں کی طرف سے چلائی گئی اور یہ سلسلہ تقسیم کے بعد بھی نہ روک سکا۔ اردو زبان کا لہجہ اور گرائمر ہندی سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہیں۔ ہندوستان میں یہ بحث بھی جاری رہی کہ یہ دونوں ہندوستانی زبانیں ہیں یا یہ دونوں اپنی علیحدہ حثییت رکھتی ہیں۔ لیکن ہندوؤں کی اردو سے نفرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اردو ہندوستان میں ہمیشہ سے موجود نہیں تھی بلکہ یہ مسلمانوں کے دور حقوق میں وجود میں آئی تھی۔

برطانوی راج کے دوران 1850 میں ساؤتھ ایشیاء میں انگریزی کے ساتھ اردو کو بھی قومی زبان کا درجہ حاصل تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اردو کی ترویج کے لئے بہت کام ہوا اور اس زبان نے بہت ترقی کی، اردو کی گرائمر کے قوانین کی پہلی کتاب بھی ایک انگریز نے اسی دور میں لکھی تھی۔ اس دور میں تمام سرکاری سکولوں، اداروں، عدالتوں اور حکومتی دستاویزات میں اردو کو استعمال کیا جاتا تھا۔ تاہم ہندوؤں کی طرف سے 1880 میں ہی اس کے خلاف تحریک کا آغاز کردیا گیا تھا اور 1900 میں ہندی کو بھی اردو کے متوازی مقام مل گیا۔ اس قسم کی تحریکیں 19 اور 20 صدی کے دوران چلائی جاتی رہی تھی۔ 1893، 1910، 1918 اور 1926 میں اردو کے خلاف تحریکیں چلی، ان کا مطالبہ تھا کہ مقامی لوگ اردو سے واقف نہیں ہیں چنانچہ ان کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اردو کی جگہ مقامی زبان کو رائج کیا جائیں۔ ان کا مزید مطالبہ تھا کہ مسلمانوں نے ہندوستان پر بازور طاقت قبضہ کیا اور ان کا تعلق عرب اور ترکش علاقوں سے تھا، چونکہ اردو میں عربی اور فارسی کے بے شمار الفاظ شامل ہیں اور رسم و الخط بھی ایک جیسا ہے اس لئے اس زبان کو فوری طور پر بدل دینا چاہئے۔

برصغیر کی تاریخ میں تقسیم سے پہلے تک اردو کے خلاف نفرت مسلسل جلتی رہی، پھر 14 اگست 1947 کو پاکستان بن جاتا ہے، اردو پاکستان کی قومی زبان قرار پاتی ہے۔ پاکستان کے موجود آئین کی شک نمبر 251 کے تحت اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی لیکن یہ قومی زبان پاکستان میں کسی جگہ رائج نہیں۔ سرکاری طور پر اردو جبکہ عملی طور پر انگریزی کو پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ ہمارے نوجوان اردو بولتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں، اردو کو جہالت کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں تیزی کے ساتھ انگریزی تعلیم رائج ہورہی ہے، ہر تعلیمی ادارہ اپنی فیس میں اضافہ کرنے کے لئے انگلش میڈیم کی چھاپ لگا لیتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ کے واضح احکامات کے باوجود اردو کو عدالتی نظام تک میں شامل نہیں کیا گیا۔ کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اس کی مادری زبان ہوتی ہے لیکن شاید ہم اس حقیقت سے آشنا نہیں ہے۔ پاکستان بن گیا، مسلمانوں کو اپنا وطن مل گیا لیکن اردو ابھی تک بے وطن ہے، یہ خانہ بدوش ہی رہی، اس کو اپنا مسکن نہیں مل سکا۔