1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. سوئی کا نکا

سوئی کا نکا

وہ گھروں میں کام کیا کرتی تھی ہم اسے "اماں" کہتے تھے وہ بڑھاپے میں جیسی تھی جوانی میں بھی ویسی ہی دکھتی تھی۔ بچپن سے ہی اس کی کمر میں خم آچکا تھا وہ تھوڑا سا جھک کر چلا کرتی تھی۔ وہ گھروں میں کام کرتی تھی، برتن دھونا، جھاڑوں لگانا اس کا کام تھا۔ اس نے جوانی میں اس وقت محنت مزدوری شروع کی جب اس کے خاوند کی نشے کی عادت پکی ہو رہی تھی۔ جوانی میں بھی اس کے جسم پر واجبی سا گوشت تھا اور بڑھاپے میں اس کی ہڈیاں تک نظرآنے لگی تھی۔ خود وہ کسی سے کچھ نہیں مانگتی تھی لیکن اس کا سارا خاندان صدقہ و زکوۃ، نظر نیاز پر پلتا تھا۔ اس کا کوئی فرقہ نہیں تھا وہ بس ضرورت مند تھی۔ اس کے بیٹے نے خوب بچے پیدا کئے اور پھر خود نشے پر لگ گیا۔ اس کا نام ایوب تھا لیکن صرف نام ہی کا ایوب تھا اس کا سارا صبر اس کی ماں میں منتقل ہوگیا تھا۔ اماں جیسے جیسے بڑھاپے میں قدم رکھ رہی تھی اس کے دکھ بھی اپنی آبادی میں اضافہ کرتے جا رہے تھے۔ اس کے دکھوں کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس کے حالات سے واقف ہر کوئی اس کے مرنے کی دعا کرنے لگا تھا لیکن شاید اس کو زندگی کی سزا سنائی گئ تھی۔ ایک دن میں نے اپنے محلے کی مسجد سے اس کی فوتگی کی اطلاع سنی۔ امی کے کہنے پر بھاگم بھاگ اس کے گھر گیا تو وہاں سکون تھا، خاموشی تھی اور چپ کا پہرا تھا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کے اس کو تدفین کے لئے اس کے آبائی گاؤں لے جایا گیا ہے۔ اس کی موت پر سب سے زیادہ اداسی دکھوں کو تھی ان کی بچپن کی ساتھی ان کو چھوڑ کر چلی گئی تھی۔

وہ شخص ایک سکول کے سامنے سستی گولیاں بیچا کرتا تھا۔ یہ ہمارے بچپن کا زمانہ تھا جب ایک روپے میں گولیوں کے آٹھ پیکٹ آجاتے تھے اور ہر پیکٹ میں کوئی دس یا بارہ چھوٹی چھوٹی گولیاں ہوتی تھی ان کے بہت سارے رنگ تھے۔ لیکن خود اس کی زندگی رنگوں سے خالی تھی۔ یہ زمین پر کپڑا بیچھا کر سکول کے سامنے بیٹھ جاتا اور آنے جانے والے لوگوں کو سوالی نظروں سے دیکھا کرتا تھا۔ اس کے پاس ایک ہی کپڑا تھا، سفید رنگ کا لیکن لگتا تھا اس نے کبھی اس کو دھویا نہیں تھا۔ اس کے پاس کپٹروں کا بھی ایک ہی جوڑا تھا، اس کا رنگ بھی سفید ہی تھا لیکن ان کو دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ یہ کپڑا کبھی سفید رہا ہوگا۔ غربت، افلاس، تنگددستی، بے بسی اس کے چہرے سے ٹپکٹی تھی۔ وہ دن کو گولیاں فروخت کرتا اور رات کو یہاں ہی سو جاتا تھا۔ جب گرمیوں کے دن ہوتے تو اس کا واحد کپڑا اس کے نیچے ہوتا اور جب سردیوں کے دن ہوتے تو یہ کپڑا اس کے اوپر ہوتا تھا۔ لیکن میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ ٹھنڈی زمین پر کیسے سو جاتاتھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا وہ باپ کے ساتھ ہی ہوتا تھا۔ بڑوں سے سنا تھا کہ قسمت کبھی نا کبھی مہربان ضرور ہوا کرتی ہے۔ پھر ایک دن یہ شخص فوت ہو گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی تدفین کے پیسے کہا سے آئے ہونگے۔ کچھ دن کے سوگ کے بعد اس کی جگہ اس کے بیٹے نے لے لی لیکن اس سوگ کے دنوں میں ان کا گزربسر کیسے ہوا یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ اس کے بیٹے نے صرف اس کی جگہ ہی نہیں لی بلکہ اس کی قسمت بھی لے لی تھا۔ اس کے حالات میں ایک فرق ضرور آیا تھا کہ اس کو اس کے باپ کی آبائی جگہ سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ وہ اب کہا ہے یہ تو معلوم نہیں لیکن جب ایک آدھی بار کہی نظر آیا تو اس کا حال اپنے باپ جیسا ہی تھا۔

وہ بوڑھا شخص اندرون شہر کی ایک چھوٹی سی نالی پر چھوٹی سی لکٹری رکھ کر، اسے اپنی دکان بنا کر بیٹھ گیا۔ یہ بچوں کے کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرتا تھا۔ اس نے جتنا عرصہ کام کیا اس کے پاس ایک ہی شلوار قمیص تھی، کسی صحت مند آدمی نے اسے اپنا سوٹ خیرات سمجھ کر عطاء کیا ہونگا۔ اس ایک شلوار قمیص کے علاوہ اس کے پاس کبھی اتنے پیسے ہی جمع نہیں ہوئے کہ وہ کبھی کچھ خرید سکے۔ اس کی یہ منگتی شلوار قمیص اتنی کھلی تھی کہ اس کا وجود اس میں حرکت کرتا، یہاں وہاں گھومتا ہوا محسوس ہوتا تھا اور اس پر ستم یہ کہ وہ اس پرانی، بدبودار اور میلی قمیص کو کہیں سے مانگ کر مائع لگا لیا کرتا تھا۔ اس کی یہ قمیص بےشمار جگہوں سے پھٹی ہوئی تھی۔ اس کی قمیص کی سامنے کی جیب کچھ دن تو قمیص کے ساتھ ہی لٹکتی رہی پھر وہاں سے بھی غائب ہوگئی۔ اس کے پاس ایک قینچی چپل تھی جس کا رنگ کالا تھا اور اس کے پاؤں کا رنگ بھی کالا تھا۔ لیکن پھر بھی ان دونوں میں فرق کیا جا سکتا تھا کیونکہ اس نے اپنی ٹوٹی ہوئی قینچی چپل کو جگہ جگہ سے کئی رنگ کی ٹاکیوں کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ لیکن اس کا ایک شوق تھا، وہ اپنی شیو رکھتا تھا اس کے داڑھی کے بال کبھی بڑے ہوئے نظر نہیں آتے تھے۔ یہ شیو کرکے اپنے چہرے پر سرسوں کے تیل کی مالش کرلیا کرتا تھا جس سے اس کا چہرہ چمک اٹھتا۔ وہ ایک چھوٹے سے ٹوٹے ہوئے شیشے میں اپنے آپ کو بار بار دیکھا کرتا تھا اس ٹوٹے ہوئے شیشے میں اس کی مکمل شکل نظر نہیں آتی تھی۔ یہ شیشے کو کبھی دائیں کبھی بائیں کبھی اوپر کبھی نیچے کر کے اپنا مکمل معائنہ کرتا اور ایسا وہ دن میں کئی بارکرتا تھا۔ ہمارے علاقے میں ایک نیم پاگل عورت ہوا کرتی تھی اس نے ایک دن شور مچادیا کہ اس بوڑھے نے مجھے چھیڑا ہے۔ اس عورت کے تین بھائی تھے جو موقع پر موجود نہیں تھے۔ ان میں سے ایک گھرآیاتو اس نیم پاگل عورت کی باتوں میں آکر اس کی غیرت جاگ گئی۔ وہ اس بوڑھے کی طرف لپکا گالیوں کے ساتھ ساتھ اس بوڑھے کو گریبان سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا اپنے محلے کی طرف لے آیا۔ اس بوڑھے کے سر کو دیوار سے پٹکا اور خون کا فوارا سا پھیل گیا۔ اس کے بعد گھونسوں کی برسات ہوئی اور محلے داروں کی مداخلت سے اس بوڑھے کی عزت بحال ہوئی۔ وہ بوڑھا ڈرا سہما خاموشی کے ساتھ واپس اپنی نالی کے اوپر بنی دکان میں آکر بیٹھ گیا۔ اس کے سر سے خون مسلسل بہہ رہا تھا اور یہ پہلا موقع تھا کہ اس کی سفید میلی گندی قمیص لال ہوگئی تھی۔ کچھ دیر بعد اس نوجوان کو اپنی بہن کے نیم پاگل پن کا یقین آیا تو وہ ندامت کے ساتھ اس بوڑھے کے پاس گیا۔ اس کی مرہم پٹی کی، دوائی دی اور کھانے کو کچھ چیزیں اور اس طرح بوڑھے کی نیلام کردہ عزت کا حساب کتاب برابر ہوا۔ لیکن غریب کے پاس عزت کے سواء ہوتا کیا ہے وہ بیچارا کچھ دنوں تک دکان کرتا رہا پھر اس علاقے سے ایسا رفوچکرہوا کہ واپسی کا راستہ تک بھول گیا۔

اس کی آنکھوں کی بینائی نہیں تھی، آنکھیں ہمیشہ تھوڑی سی کھولی رہتی تھی اور اس کا منہ اوپر کی سمت اٹھا رہتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گرد کالے ہلکے تھے۔ وہ لکٹری کی اسٹیک پکڑ کر چلا کرتا تھا۔ اس کے سر پر نمازیوںوالی سفید ٹوپی ہوتی تھی۔ اس نے سفید رنگ کی شلوار اور ہلکے رنگ کی قمیص پہنی ہوتی تھی میں نے اپنے بچپن سے لے کر اب تک اس کو کبھی نئے کپڑے پہنے نہیں دیکھے۔ یہ بوڑھا شخص تھا جس کی آواز بیٹھی رہتی تھی۔ اس کی سفید چھوٹی ڈاڑھی تھی۔ یہ "نالے" فروخت کیا کرتا تھا۔ یہ اندرون شہر کی گلیوں میں چکر لگاتا رہتا زیادہ چل چل کر اس کی اکلوتی جوتی گھیس گئی تھی اس کے ناخن ماس میں گھس چکے تھے اور یہ نیچے سے ہر وقت سوجے رہتے تھے۔ اس سے ٹھیک سے چلا نہیں جاتا تھا، چلتے وقت اس کے پاؤں زمین کے ساتھ رگڑ کھاتے تھے۔ وہ اپنے نالے فروخت کرنے کے لئے صدا بلند کرتا رہتا تھا " نالا پانچ روپے، نالا ست روپے، بڑے بڑے نالے، نالے دی جوڑی دس روپے" اس کی اردو پنچابی مکس یہ صدا دور سے ہی سنی جاسکتی تھی۔ اس کے الفاظ صاف تھے لیکن بولتے وقت اس کے منہ سے اکثر تھوک نکل آتی تھی۔ آخری عمر میں اس کے منہ سے رال ٹپکنے لگی تھی۔ وہ صبح سویرے کسی جگہ سے نمودار ہوتا اور رات دیر تک نالے فروخت کرتا رہتا تھا لیکن میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس کا کوئی نالا فروخت ہوا ہو۔ میں ایک دن حسب معمول اس کے پاس سے گزرا تو وہ ایک شخص کو اپنی کہانی سنا رہا تھا۔ اس کو کسی شخص نے کپڑوں کا نیا جوڑا دیا اور کچھ نئے نالے بھی تاکہ یہ ان کو فروخت کریں۔ وہ ابھی ان چیزوں کو لے کر نکلا ہی تھا کہ کوئی اجنبی اس کا نیا جوڑا اور اس کے نالے لے کر بھاگ گیا۔ وہ بوڑھا یہ سب باتیں بتا کر رویا نہیں مجھے یقین ہے اس کے آنسو خشک ہوچکے ہونگے ورنہ یہ رونے کا مقام ہی تھا۔

اوپر بیان کی گئی یہ چند کہانیاں اپنے اندر بہت کچھ سمائے ہوئے ہیں۔ یہ زندگی کی وہ حقیقتیں ہے جن کے دکھ کی گہرائیوں کو وہی جانتے ہیں جن پر یہ سب بیت رہا ہوتا ہے۔ 2016 کے ایک جھوٹے حکومتی اعداوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر دس میں سے چار افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں اور یہ تعداد بلوچستان میں سب سے زیادہ ہے۔ بہت سے خاندان ایسے ہے جو کہ 125 روپے روزانہ پر اپنا گزربسر کرتے ہیں۔ آپ لاہور کی سڑکوں پر نکل جائے آپ کو گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آئے گی ہمارے گلی محلوں میں ہر دوسرے فرد کے پاس موٹرسائیکل ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے نئے ماڈل کے سیل فون لے کر گھومتے ہیں۔ ان کے کپڑوں کا فیشن بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ وہ خوشحالی ہے جومخص چند خاندانوں تک محدود ہو کر رہ چکی ہے۔ امیر اور غریب میں موجود یہ فرق مجھے کبھی کبھی موئن جو دڑو کی یاد دلاتا ہے۔ پچھلے سال میرا اس جگہ جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ یہ لفظ سندھی زبان سے نکلا ہے جس سے مراد ہے "مردہ مردوں کے زخم"۔ یہ علاقہ صوبہ سندھ کے گرم شہر لاڑکانہ میں ہے اس کی تاریخ 2500 قبل مسیح کی ہے۔ یہ وادی سندھ کی سب سے پرانی تہدیب ہے اور اس کا شمار دنیا کے سب سے پرانے شہروں میں کیا جاتا ہے۔ انیسویں صدی میں اس تہذیب کے اہتمام کے ساتھ ہی یہ جگہ بھی مٹی میں مل گئی پھر اس کو 1920 میں دریافت کیا گیاتھا۔ اس شہر کی آبادی قریب 40،000 کے قریب تھی۔ اس شہر کی کھلی گلی محلوں اس کی عمارات اور سہولیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں بہترین معاشرتی تنظیم کا نظام رائج رہا ہونگا۔ یہ شہر دو حصوں میں تقیسم تھا، ایک حصہ نسبتا بہتر اور قلعہ نما تھا جب کہ دوسرا شہر کا عام اور معمولی حصہ تھا۔ شہر کا اعلیٰ شان حصہ پانچ ہزار لوگوں کی رہائش کا انتظام رکھتا تھا۔ یہاں دو بڑے ہال بھی تھے اور ایک مارکیٹ اور اس سے منسلک مال بھی تھا۔ جب کہ یہاں پبلک واش رومز کا نظام بھی موجود تھا۔ اس کے علاوہ یہاں نکاسی کا باقاعدہ نظام بھی مرتب کیا گیا تھا۔ جب کہ شہر کا دوسرا عام اور معولی حصہ غریب لوگوں کی بستی تھی۔ انسان اپنی تاریخ کے 2500 سال قبل مسیح میں بھی اپنے سے معاشی طور پر کمزور افراد کو اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں تھا۔ انسانوں کی یہ معاشی تقسیم اب کی نہیں بلکہ یہ موزی بیماری روزاول سے ہی انسانیت کے ساتھ چپکی ہوئی ہے۔ لیکن اللہ کی اس تقسیم پر اس لئے اعتراض نہیں کیا جاسکتا کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے "اللہ جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق عطاءکرتاہے" معاشرے میں امیروں کا غریبوں کے ساتھ رواں غیر منصفانہ سلوک ان کی تربیت کا منہ بولتاثبوت ہے۔ لیکن میں جب اپنے آس پاس موجود انسانوں کی انسانیات کو سوچتا ہوں تو ایک ارشاد ہمیشہ میرے زخموں کو ٹھنڈی مرہم عطاء کرتا ہے۔ حضرت عیسی کا زمانہ رسول پاک سے 600 سال پہلے کا ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دے کہ میں جنت میں چلاجاؤں۔ آپ نے فرمایا ایک ایسا عمل ہے کہ میں تمھیں ہاتھ پکٹر کر جنت میں داخل کروں گا۔ وہ شخص کہنے لگا ایسا کیا عمل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اپنی ساری دولت ضرورت مندوں میں تقسیم کردو اور میرے ساتھ میرا ہاتھ پکرکر جنت میں آجاؤ۔ اس شخص نے جب یہ سنا تو وہ یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ یہ بہت مشکل عمل ہے۔ حضرت عیسی کی ایک عادت مبارک تھی کہ وہ اپنے جملوں میں اکثر "میں تم سے سچ کہتا ہوں" کے الفاظ استعمال کیا کرتے تھے۔ میں اپنے آج کے کالم کے آخر میں حضرت عیسی کا ایک قول نقل کرنا چاہوں گاجوکہ سب غریبوں کے زخموں پر ٹھنڈی مرہم کا کام کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا "میں تم سے سچ کہتا ہوں، اونٹ کا سوئی کے منکے میں سے گزر جانا تو بہت آسان ہے لیکن کسی دولت مند کا جنت میں داخل ہونا بہت مشکل ہے"