1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. دو قومیں

دو قومیں

زندہ قوموں کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماضی سے ہمیشہ وابسطہ رہتی ہے اس سے سبق حاصل کرتی ہے اور اپنا ماضی یاد رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ میں اپنے موضوع کی طرف آنے سے پہلے دو قسم کے میوزیمز کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ پہلے میوزیم کا نام ہے "انڈین نیشنل میوزیم"، یہ میوزیم بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں 1949 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایک عالی شان بلڈنگ ہے، میں آپ کو اس میوزیم کے دوسرے فلورپر لے جاتا ہوں، یہاں "نیوی گیلری" ہے۔ جہاں کانسی کی دھات سے ایک تصویر بنی ہوئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ مشرقی پاکستان کے ایسٹرن کمان کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل اے اے خان نیازی بھارتی لیفٹینٹ جنرل جیگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے "انسٹرومنٹ آف سرینڈر" یعنی شکست پر دستخط کررہے ہیں۔ اس تصویر کے نیچے اس تحریر کا خاکہ بھی موجود یے جس پر پاکستانی لیفٹینٹ جنرل کے دستخط ہے یہ وہ آخری بنگلہ دیشی تحریر تھی جس پر کسی پاکستانی کے دستخط تھے، اس تحریر پر کیا لکھا تھا اس پر بات پھر کسی کالم میں کریں گے۔

اب میں دوسرے میوزیم کی طرف آتا ہوں، اس میوزیم کا نام "لیبریشن وار میوزیم" ہے، یہ میوزیم شیربنگال نگر، ڈھاکہ میں 22 اپریل 1996 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس میوزیم کے دو فلور ہے۔ اس میوزیم میں ہندوستان کی تحریک آزادی کے یاداشتیں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ اس میں بنگالی زبان کی تحریک کو بھی تصویری اور تحریری طور پر درج کیا گیا ہے۔ یہ تحریک 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی میں ہی شروع کی گئی تھی، اس تحریک کوبنگلہ دیش کی آزادی کی بنیاد بھی قرار دیا گیا ہے۔ اس میوزیم میں پاکستانی فوجی افسران کی تصویریں بھی آویزاں ہے جس کے نیچے ان کی طرف سے کئے گئے مظالم بھی درج ہے۔ یہاں پاکستانی افواج کی کچھ واردیاں بھی محفوط ہے جن کو دوران جنگ شہید کیا گیا تھا۔ یہاں ان بنگالی لوگوں کے سر کی کھوپڑیاں اور ان کے جسم کی ہڈیوں کو بھی محفوظ کیا گیا ہے، جن کو ان کے بقول پاکستانی افواج نے قتل کیا۔ یہ ان دومختلف میوزیمز کی تقریبا" ایک جیسی مختصر وضاحت ہے۔

میں موضوع پر واپس آنے سے پہلے آپ کو بنگلہ دیش انٹرنیشل کرائم ٹربیونل کا احوال بیان کرنا چاہوں گا۔ 2008 کے عام انتخابات میں بنگلہ دیش عوامی لیگ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اعلان کیا کہ ہم اقتدار میں آکر 1971 کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے والے افراد کو نشان عبرت بنادے گے اور مظلوموں کو ان کا حق ملے گا۔ بھارت کی طرح بنگلہ دیش میں بھی الیکشن کی کامیاب کا دارومدار پاکستان دشمنی ٹھہرا۔ عوامی لیگ نے حکومت قائم کرنے کے ساتھ ہی ایک آرڈینینش کے تحت 2009 میں ایک ٹربیونل کی بنیاد رکھی اور اس نے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا۔ اس کے فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جماعت اسلامی کےآٹھ عہدیداران کے خلاف مقدمات دائرہ ہوئے اور چھ پر فرد جرم عائد کیا گیا۔ ان میں سے ایک عبدالقادر ملا بھی تھے۔

عبدالقادرملا 14 اگست 1948 میں امیرآباد، فرید پورمیں پیدا ہوئے۔ آپ زمانہ طالب علمی سے ہی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ آپ نے بعد ازاں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ 1971 کی جنگ میں جماعت اسلامی پاکستانی افواج کے شابہ بشانہ شامل رہی۔ جماعت اسلامی کے علاوہ چند ذیلی تنظیمیں "البدر" الشمس" اور" رضاکار" نے بھی پاکستانی افواج کا ساتھ دیا۔ لیکن یہ سب اتحادی مل کر بھی آٹے میں نمک کے برابر نہیں تھے۔ ان کو ایک طرف مقامی بنگلہ دیشی عوام نے گھیر رکھا تھا اور دوسری طرف انڈین آرمی اور متکی باہنی بنگالی عوام کا قتل عام کر رکھے تھے۔ 16 دسمبر 1971 کو "سب صحیح ہے" کا چرچہ کرنے والے پاکستانی میڈیا نے سقوط ڈھاکہ کا اعلان کردیا۔ یہ دن پاکستان میں سوگ کا عالم تھا سقوط ڈھاکہ بےشک سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد مسلم دنیا کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد وہاں پاکستان سے محبت کرنے والوں اور جماعت اسلامی کے کارکنان کا قتل عام کیا گیا اور جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ نہ تو سیاست میں حصہ لے سکتی تھی اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی رفاہی کام کرسکتی تھی۔ 1975 میں شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد نئی حکومت نے ان پر سے پابندی ہٹا دی۔ عبدالقادر ملا 2010 تک جماعت اسلامی میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے، آپ اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائزرتھے۔ بنگلہ دیش انٹرنیشل کرائم ٹربیونل نےآپ کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا، آپ کے خلاف چھ قسم کے الزامات لگائے گئے جن میں سے ایک یہ تھا کہ آپ نے 1971 میں پاکستانی افواج کے ساتھ مل کر 344 بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ اس ٹربیونل نے چھ میں سے پانچ مقدمات میں آپ پر فردجرم عائد کی۔ پانچ فروری 2013 کو ٹربیونل کی جانب سے آپ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

یہاں سے میں آپ کو ایک چوک کی طرف لے جاتا ہوں، اس چوک کا نام ہےشہبگ ہے۔ یہ ڈھاکہ کا وہ مقام ہے جہاں پرانے اور نئے ڈھاکہ کی حدود ایک دوسرے سے ملتی ہے۔ یہ شہر کا مصروف ترین علاقہ ہے جہاں کا اپنا پولیس اسٹیشن بھی ہے۔ یہاں ہر وقت لوگوں کا ہجوم سا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں شہر کا بڑا بس اسٹیشین بھی ہے جہاں سے بسیں سارے ڈھاکہ میں چلتی ہے۔ 5 فروری 2013 کو یہاں لوگوں کاہجوم جمع ہوگیا۔ لوگوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ یہ سب لوگ قومی نغمیں گنگنا رہے تھے اور وطن سے محبت کے لئے نظمیں پیش کر رہے تھے۔ ان لوگوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر پابندی عائد کی جائے اور عبدالقادرملا کی عمر قید کو پھانسی میں تبدیل کیا جائے۔ شہبگ سے شروع ہونے والا یہ احتجاج ڈھاکہ سمیت ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا تھا ان کے جواب میں جماعت اسلامی کے کارکنان بھی احتجاج کر رہے تھے، اس طرح فساد پھوٹ پڑا اور 60 کے قریب لوگ مارے گئے، جس کا الزام بھی جماعت اسلامی کے کارکان پر لگا۔ 17 ستمبر 2013 کو اس ٹریبونل نے اپنے آئین میں تبدیلی کی اب اس کے فیصلوں کو سپریم کورٹ آف بنگلہ دیش میں چیلنج کیا جاسکتا تھا۔ عوامی حکومت نے ریاست کی جانب سے سپریم کورٹ میں اس عمر قید کو سزائے موت میں بدلنے کی سفارش کی۔ کچھ عرصہ مقدمہ چلا اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں 11 دسمبر 2013 کو عبدالقادر ملا کو پھانسی کا حکم سنا دیا۔ قانونی وجوہات کی بناء پر عبدالقادر ملا کو ایک دن بعد یعنی 12 دسمبر2013 کو، بنگلہ دیش کے قومی دن سے تین دن پہلے، ڈھاکہ سنٹرل جیل میں 65 سال کی عمر میں پھانسی دے دی گئی۔ واضح رہے کہ اس ٹربیونل کا قیام 1974 میں ہوئے "معاہدہ دہلی" کی کھلم خلاف ورزی تھی۔

یہ معاہدہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ہوا تھا۔ اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کی غرض سے مذاکرات 8 اگست 1973 سے 1 جولائی 1974 تک جاری رہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم بھی کیا اور 90,000 پاکستانی جنگی قیدیوں کی واپسی بھی ممکن ہوئی۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی 121,695 افراد کو پاکستان سے بنگلہ دیش منقتل کیا گیا جبکہ 108,744 افراد کو بنگلہ دیش سے پاکستان منتقل کیا گیا۔ 6500 افراد کو بھارت سے بذریعہ ٹرین پاکستان منتقل کیا گیا۔ میں یہاں آخر میں بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا ایک بیان نقل کرنا چاہوں گا۔ ڈھاکہ میں 26 مارچ 2018 کوعوامی پارٹی کی جانب سے بنگابندہ انٹرنیشل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس کے اہتمام پر بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ " جو اس آزاد ملک میں رہنے کے باوجود پاکستان سے محبت رکھتے ہیں ان کو سزا ہو گی۔ بنگلہ دیشی عوام کو ان لوگوں کی نشاندہی کرنی چاہئے جن کے دلوں میں پاکستان کے لئے نرم گوشہ ہےتاکہ ان کو سزا دی جائے اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہمارا وجود خطرے میں ہو گا، 1975 میں شیخ مجیب الرحمان کا قتل ایک کوشش تھی تاکہ 1971 کے فیصلے کونقصان پہنچایا جائے" میں اب اپنے آج کے کالم کی طرف واپیس آتا ہوں۔ میں یہاں دو قوموں کا ذکر کروں گا۔

1971 کو بنگلہ دیشی قوم وجود میں آئی۔ انہوں نے یہ جنگ پاکستان دشمنی سے شروع کی۔ میں ان کو سلام پیش کرتا ہوں کہ یہ نفرت کی اس آگ کو اب تک جلائے ہوئے ہیں۔ یہ اب تک پاکستان سے محبت کرنے والوں کو چن چن کو نشان عبرت بنا رہے ہیں۔ یہ اب تک پاکستان سے محبت کرنے والوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ یہ اپنی نئی نسل کو اب بھی یاد کرواتے رہتے ہیں کہ پاکستان ان کا دشمن ملک ہے۔ وہ ان کو یاد کرواتے رہتے ہیں کہ پاکستانی فوج نے ان کے بڑوں کا قتل عام کیا تھا۔ بنگلہ دیش میں قائم ایک عظیم الشان میوزیم صرف اور صرف پاکستان دشمنی کی علامت ہے۔ یہاں کا وزٹ کرنے والا ہر فرد اپنے اندر پاکستان دشمنی کے جذبات کو مزید ہوا دے کر باہر آتا ہے۔ یہ زندہ قوم کی علامت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماضی کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ میں اب پاکستانی قوم کی طرف آتا ہوں، میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ پاکستانی زندہ قوم ہے یا نہیں کیونکہ قومیں زندہ یا مردہ ہوا کرتی ہے لیکن ہجوم بس ہجوم ہوتا ہے۔ مجھے شکوہ بنگلہ دیش سے نہیں، یہ وہی کر رہے ہے جو کہ ایک دشمن ملک ایک دشمن ملک کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ یہاں سوال پاکستانی قوم سے ہیں یہ کیسی قوم ہے۔ یہ کیسی فالج زدہ قوم ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش تقسیم پاکستان کے خلاف تھی۔ یہ پاکستانی افواج کے شابہ بشانہ لڑتی رہی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ان کا قتل عام کیا گیا ان پر پابندی لگا دی گئی۔ ان کے جوان بچوں کو مار دیا گیا ان کی بیٹیوں کی عزتیں پامال کی گئی۔ صغیف العمر عہدیداران کو پھانسیاں دی جا رہی ہے۔ لیکن ہم نے ان کی قربانیوں کا کیا صلہ دیا۔ ہماری پارلیمنٹ نے ایک بار احتجاجی قرار داد پیش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

باحیثیت قوم ہمیں اس چیز سے کوئی دلچسپی نہیں کہ ہمارے ساتھ محبت رکھتے والوں کے ساتھ بنگلہ دیش میں کیا ہو رہا ہے۔ ویسے تو ہماری قوم کو کسی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن ہمارا موجودہ رویہ دنیا کو یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں بسنے والا کوئی شخص یا تنطیم پاکستان سے محبت کرنے کی زحمت نہ کریں کیونکہ جو قوم اپنے محسن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ روا رکھے گئے رویہ پر خاموش رہ سکتی ہے اس سے کچھ بھی اچھا گمان نہیں کیا جاسکتا۔ میں آخر میں حکومت پاکستان سے ایک فضول مطالبہ کرنا چاہوں گا کہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو عام کیا جائے اور بنگلہ دیش کی طرح پاکستان میں بھی کمیشن بنایا جائے تاکہ 1971 کے مجرموں کو نشان عبرت بنایا جاسکیں۔