1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. بیٹ ڈو

بیٹ ڈو

بیٹ ڈو ایک خیالی نام تھا ایک نامعلوم عورت کا جو کہ یورپین امریکن تھی۔ اس کو 20 دسمبر1976 میں امریکن ریاست پنسلوانیا کے علاقے وائٹ ہیووین میں قتل کر دیا گیا تھا۔ جب اس کو قتل کیا گیا، وہ اس وقت نو ماہ کی حاملہ تھی۔ اس نامعلوم عورت کی شناخت نہیں ہو پارہی تھی جس وجہ سے یہ کیس عالمی توجہ حاصل کر گیا۔ جب اس کی لاش ملی تو اس کو 7 یا24 گھنٹے پہلے قتل کیا گیا تھا، اس کے ساتھ جنسی تشدد بھی کیا گیا اور ممکنہ طور پر اس کی موت گردن میں گولی لگنے سے ہوئی تھی۔ کسی تیز دھار آلے سے اس کے جسم کے ٹکڑے بھی کئے گئے تھے، ان اعضاء میں سے اس کے ناک، کان اور سینے کو تلاش نہیں کیا جا سکا تھا۔ اس کے جسم کے اعضاءکو ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیااور ان ٹکڑوں میں ایک مکمل حصہ اس کی ناملود بیٹی کا بھی تھا۔ ان تمام اعضاء کوتین بیگز میں ڈالا گیا تھا۔ ان بیگز میں سے دو کا رنگ لال، نیلے اور سفید رنگوں پر مشتمل تھا جبکہ تیسرا بیگ مختلف ڈیزائینوں سے پرنٹ کیا گیاتھا۔ یہ تینوں بیگ ایک ہی قسم کے لیڈر سے بنے ہوئے تھے اور ان کا سائز بھی ایک جیسا تھا۔ لیکن جو عجیب چیز تھی وہ یہ کہ تینوں بیگوں کو کالا رنگ کیا گیا تھا۔ یہ رنگ کسی خاص مقصدد کے لئے تھا یا اس میں کوئی نشانی تھی، ان خاص رنگوں کا اس قتل کے ساتھ کیا تعلق تھا یہ معلوم نہیں کیا جا سکا۔ تاہم پولیس کی جانب سے ان کی جو تصویریں جاری کی گئی تھی وہ ان کے اصلی رنگوں کے ساتھ تھی نہ کہ کالے رنگ والی۔ ان بیگز کو ایک پل کے اوپر سے دریا میں پھینکا گیا تھا، یہ دریا وائٹ ہیون، پنسلوانیا مین بہتا تھا۔ ان بیگز کو 300 فٹ کی بلندی سے پھینکا گیا تھا لیکن شاید ان بیگز کو پھینکنے سے پہلے کسی مال گاڑی کی مدد سے یہاں تک لایا گیا تھا لیکن اصل مقصد ان بیگز کو گہرے پانیوں میں پھینکنا تھا تاکہ یہ پانی کے ساتھ بہتے بہتے دور نکل جائے اور کوئی ثبوت باقی نہ رہے۔ لیکن جب ان کو پھینکا گیا تو ان میں سے دو بیگ جنگل کی طرف گر گئے تھے جبکہ ایک تیسرا بیگ جس میں سر اورپاوں تھے، وہ دریا کے کنارے سے ملا تھا۔ ان تین بیگز میں سے دو بیگز کھل چکے تھے جس کی وجہ سے ان میں موجود جسم کے اعضا بکھر گئے، سر پاوں اور اعضائے رئیسہ کے کچھ حصے ضائع ہو گئے۔ ان اعضا میں سے کچھ کو بستر نما چادر اور اخبار کے ٹکڑوں میں لپیٹا گیا تھا، یہ اخبار نیوجرسی سے شائع کیا جاتا تھا یا اس کا تعلق اس علاقے سے تھا۔ بستر نما اس چادر کا رنگ سرخ اور سنتری رنگ کا تھااور اس کا فیبرک چینل کا تھا۔ اس پر پیلے اور پنک پھول بنے ہوئے تھے۔ جب لاش کو تلاش کیا گیا تو اس کے فنگر پرنٹس حاصل کئے گئے، اس کے دانتوں کا معائنہ بھی کیا گیا اور ایک چارٹ مرتب ہوا۔ کیس کی تفتیش کرنے والوں نے مشاہدہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ پر چند حروف کندہ تھے جو کہ روشنائی سے تحریر کئے گئے تھے اور ایک قلم اس کے ہاتھ سے بھی ملی تھی اور لگتا تھا کہ یہ روشنائی اسی قلم کی تھی۔ قاتل نے یا تو کچھ حروف اس کے ہاتھ پر کندہ کئے تھے پھر اس کے جسم کو کاٹ دیا یا دوسری صورت یہ تھی کہ مقتولہ نے یہ حروف خود اپنے بائیں ہاتھ پر کندہ کئے تھے اور اگر ایسا تھا تو مقتولہ دائیں ہاتھ سے لکھنے کی عادی ہو گی۔ یہ الفاظ ممکنہ طور پر ڈبیلو، ایس، آر تھے اورعدد 4 یا5 تھے یا پھر4 یا7 تھے لیکن یہ سب کچھ نشانیاں ہو سکتی تھی قاتل کی یا پھر مقتول کا کوئی پیغام یا کوئی اطلاع۔ یہ حروف لاش ملنے سے 8 یا12 گھنٹے پہلے لکھے گئے تھے، اگر یہ الفاظ قاتل نے لکھے تھے تو وہ اب بہت دور جا چکا تھا لیکن اگر یہ الفاظ مقتولہ نے خود لکھے تھے تو اس کا مطلب تھا کہ وہ8 یا12 گھنٹے پہلے زندہ تھی۔ لاش کے فنگر پرنٹس ایف بی آر کو ارسال ہوئے تاکہ ان کا ریکارڈ حاصل کیا جاسکتا لیکن امریکہ کی نیشنل ڈیٹا بیس میں یہ پرنٹس کسی کے ساتھ میچ نہیں ہوئے۔ ممکن تھا کہ اس کا خاندان غیر قانونی طور پر امریکہ آیا اور یہاں قیام پذیر ہوگیایا شاید اس نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ ان کا ریکارڈ حکومت کے پاس ہونا کتنا لازمی ہے۔ اس نامعوم عورت کا خیالی خاکہ جاری کیا گیا اور عوام سے شناخت کی اپیل کی گئی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کیس کے حوالے سے بے چینی امریکہ سے نکل کر عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کر گئی۔ اس لاش کو 1983 کو دفن کیا گیا تھا اور اس وقت کے یہ غیر شناخت یافتہ تھی۔ 2007 کواس کی قبر کشائی کی گئی تاکہ کچھ ٹیسٹ کرکے اس کی شناخت کی کوشش کی جائے اور اس وقت لاش کو ٹھیک رکھنے کے لئے اس پر کچھ کیمیائی مواد بھی لگایا گیا تھا۔ نیشنل سنٹر فارمسنگ چلڈرن نے اس کی شناخت کے حوالے سے دو لسٹیں جاری کیں۔ ان میں سے دوسری مئی 2015 میں جاری ہوئی ان کا خیال تھا کہ یہ لڑکی ممکنہ طور پر ان میں سے ایک ہو سکتی تھی جو کہ ان کے پاس مسنگ پرسنز کے طور پر درج تھے۔

1۔ اننتاحی بانٹسکاس، جس کا تعلق آسڑیلیا سے تھا۔

2۔ ایرس براؤن، جس کا تعلق ورمون سے تھا۔

3۔ ویلری کوکی، جس کا تعلق نیویارک سے تھا۔

4۔ ٹریسا فٹن، جس کا تعلق فلوریڈا سے تھا۔

5۔ ٹینیسنی گیسن، جس کا تعلق ٹینیسی سے تھا۔

6۔ انا چمڑی، جس کا تعلق ٹینیسی سے تھا۔

7۔ جارجیا نولان، جس کا تعلق کنیٹکی سے تھا۔

8۔ پڑیسیا سیبلبغ، جس کا تعلق پنسوانیا سے تھا۔

9۔ ڈینیس یشہی، جس کا تعلق نیویارک سے تھا۔

ابتدائی طور پر اس لاش کو پولیس نے پلاسٹک بیگ میں محفوظ کیا اور قریبی ہسپتال میں منتقل کر دیا جہاں اس کا ابتدائی معائنہ ہوا۔ 23 دسمبر1976 کو اس کا پوسٹ مارٹم ہوا جو کہ تین گھنٹے جاری رہا۔ اس پوسٹ مارٹم سے معلوم ہوا کہ یہ لڑکی یا تو20 سال کے پاس تھی یااس سے چھوٹی تھی۔ اس کا تعلق یورپ سے تھا اس کی موت کا سبب تو معلوم نہیں کیا جاسکا لیکن اس بات کا امکان تھا کہ اس کی موت گردن میں گولی لگنے سے ہوئی تھی۔ پوسٹ مارٹم سے معلوم ہوا کہ اس کا قد4.11 انچ تھا یا5.4 انچ۔ اس کا وزن140 یا 150 پاؤنڈ تھا کیونکہ وہ حاملہ بھی تھی۔ اس کےسرکے بال کندھوں تک لمبے تھے لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ قاتل نے اس کے جسم کے ٹکڑے کرتے وقت اس کے بالوں کو بھی کاٹ دیا ہو گا۔ اس کے بالوں کا رنگ براؤن تھا لیکن ان کو کلر نہیں کیا گیا تھا یہ اس کا قدرتی رنگ تھا۔ اس کی آنکھوں کا رنگ بھی براؤن تھا۔ اس کی ایڑی پر2 یا6 انچ کا کٹ کا نشان بھی تھا۔ اس کے منہ پر دو داغ بھی تھے، ایک دائیں آنکھ کے نیچے اور دوسرا بائیں رخسار پر، لیکن اس کی وجہ دوران حمل کسی قسم کا کوئی انفیکشن ہو سکتا تھا۔ اس کے پیچھے کے دانت خراب ہو چکے تھے جس میں اس نے فیلنگ بھی کروائی تھی، اس کے باقی کے دانت بھی کافی حد تک خراب تھے اور ان کا رنگ بھی خراب تھا۔ اس کے آگے کے جبرے پر ٹوٹنے کے واضح نشان موجود تھے۔ اس کی وجہ سے وہ یقینی طور پر بہت تکلیف میں رہی ہو گی۔ وہ یورپ میں پیدا ہوئی تھی اور بپچن میں امریکہ آگئی تھی، ابتدائی طور پر یہ خیال بھی تھا کہ اس کا تعلق یورپی ملک سربیا یاکروشیا سے ہو سکتا تھا۔ وہ شاید امریکہ میں 5 یا10 سال پہلے آئی تھی اور وہ ریاست ٹیسنی یااس کے ساتھ منسلک کسی علاقے میں رہائش پزیر تھی یہ تمام معلومات اس کے دانتوں سے حاصل ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کے بالوں، دانتوں اور ہڈیوں پر بھی ٹیسیٹ کیا گیا تھا جس سے یہ سب معلومات حاصل ہوئی تھی۔ بیت ڈو یورپ میں 1951 یا 1962 میں پیدا ہوئی، پھر اپنی موت کے 5 یا10 سال پہلے امریکہ آگئی تھی۔ اس کی موت13 یا19 دسمبر کو ہوئی تھی، 20 دسمبر کو اس کی کٹی ہوئی لاش ملئی، 23 دسمبر 1976 کو اس کا پوسٹ مارٹم ہوا تھا، 1983 کو اس کو دفن کر دیا گیا، 2007 میں اس کی پھر سے قبر کشائی کی گئی۔ اس کا اصل نام کیا تھا، اسکے ماں باپ کون تھے، اس کو کس جرم میں اور کیوں قتل کر دیا گیا، اس کے متعلق تاحال معلوم نہیں کیا جاسکا۔ امکان ہے کہ شاید کوئی اس کا پیدا ہونے والا بچہ حاصل کرنا چاہتا تھاکیونکہ اعضاء کو کاٹنے کے دوران اس بات کی احتیاط کی گئی تھی کہ بچے دانی کو نقصان نہ ہو۔ جب اس کے جسم کو کاٹ کر اس کی بیٹی کو نکالا گیا تھا تو اس وقت وہ زندہ تھی اور صحت مند بھی تھی، لیکن بعد میں وہ مر گئی۔ شاید اس کا خاوند یا کوئی اور اس پر ابورشن کے لئے دباؤ ڈال رہے ہو گے شاید وہ بچہ نہ چاہتے ہو یا شاید ان کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ پیدا ہونے والا بچہ ان کا ہے کہ نہیں۔