1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حمزہ خلیل/
  4. تقسیم ہند اورسکھ مسلم تنازعہ

تقسیم ہند اورسکھ مسلم تنازعہ

تحت برطانیہ نے ہندوستان کو 15 اگست 1947 تک تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس منصوبے میں پنجاب کی تقسیم ناگزیر تھی، جہاں ہندوؤں اور مسلمان دونوں اکثریت میں تھے جبکہ پنجاب میں تیسری بڑی اکثریت سکھوں کی تھی۔ ان کی نمائندہ جماعت بھی کانگرس تھی لیکن وہ 3 جون سے ہٹ کر پنجاب کی تقسیم چاہتے تھے۔ سکھ فروری سے اگست 1947 تک پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے اپنے کئی منصوبے بھی پیش کرتے رہے۔ سکھوں کی پنجاب میں مذہبی، سیاسی اور سماجی تاریخ بہت پرانی ہے، انہوں نے پشاور سے دہلی تک بہت عرصے حکومت کی۔ ان کی سلطنت بہت عزیم الشان تھی جس کے آثار آج بھی موجود ہے۔ لاہور میوزیم میں سکھوں کی حکومت کے بےشمار نوادرات محفوظ ہے۔ مسلمانوں کی تحریک آزادی کے نتیجے میں پنجاب تقسیم ہوا، سکھوں کی آبادی بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہورہی تھی جس کا سکھوں کو بہت رنج تھا اور انتقامی جذبات ان میں امڈ رہے تھے۔ تقسیم پنجاب سے پہلے سکھ کانگرس کے پلیٹ فارم سے ایسے منصوبے پیش کرتے رہے جس سے پنجاب میں ان کی اکثریت متاثر نہ ہو لیکن ان کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ تاج برطانیہ کی طرف سے پنجاب کی تقسیم کے لئے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں پر مشتمل کئی کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی لیکن یہ کسی منصوبے پر اتفاق نہ کرسکے۔ کیونکہ ہندوؤں، سکھوں سے تو متفق تھے لیکن مسلمان، ہندوؤں اور سکھوں دونوں سے متفق نہ تھے اور مسلم لیگ پنجاب میں بہت مضبوط تھی۔ ہندوؤں کا سکھوں کا ساتھ دینا تو مجبوری تھا کیونکہ سکھوں کے بغیر وہ پنجاب میں مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے لیکن دوسری طرف سکھوں کو کانگرس پر اعتماد نہیں تھا اور وہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنے نمائنددان پنجاب کے طول و عرض میں بجھوائے اور یہ پیغام عام کیا کہ "برطانیہ اقتدار ہندوستانیوں کو منتقل کر رہا ہے، ہمیں کانگرس پر اعتماد نہیں وہ ہمیں زبانی تسلی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتے"

جہاں سکھوں کی پنجاب کے ساتھ مذہبی عقیدت تھی تو وہاں ہندوؤں بھی مذہبی تعلق رکھتے تھے ان کے لئے ایک طرف پنجاب کی تقسیم نا قابل قبول تھی تو دوسری طرف وہ پنجاب کو کسی صورت اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ مسلمان بھی اس بات پر کھڑے تھے کہ اگر پنجاب کو تقسیم کرنا ممکن نہیں تو ہمیں سارا پنجاب دے دیا جائے۔ 23 مارچ 1940 کے اعلان لاہور نے ہندوؤں اور خاص طور پر سکھوں کو طیش دلوا دیا۔ وہ اپنے نوجوانوں کو ماضی کی اپنی حکومت کا دور اور اس پر مسلمانوں کے حملوں کو یاد کروا کروا کر ان کے ذہن میں نفرت کو مسلسل پوست کر رہے تھے۔ انہوں نے اعلان لاہور کے خلاف تحریک کا اعلان کیا۔

پنجاب کی تقسیم کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا تھا۔ ہندوستان کے آخری وائسرائے نے 25 مارچ 1947 کو ایک میٹنگ کال کی جس میں پنڈت نہرو نے پنجاب کی عارضی تقسیم کا ایک نیا فارمولا پیش کیا جس کے تحت پنجاب کو ہندو اکثریت، سکھ اکثریت اور مسلم اکثریت میں تقسیم کرنا تھا۔ پنجاب کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے تھے یہاں تک کہ پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے راولپنڈی ڈویژن میں سکھ مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ ان فسادات کے نیتجے میں سکھوں نے ایک دفعہ پھر اپنی علیحدہ ریاست کا مطالبہ کر دیا۔ ایسا ہی ایک مطالبہ سکھ 1930 میں بھی کرچکے تھے ان کا مطالبہ تھا کہ امبالا، جالندھراور لاہور، لائل پور (فیصل آباد)، منٹگومری (سیالکوٹ) کے کچھ علاقوں کو ملا کر ان کی علیحدہ ریاست قائم کی جائے۔ لیکن سکھوں کے اس مطالبے پر کسی نے کان نہ دھڑے کیونکہ وہ برصغیر کی کل آبادی کا صرف 1.4 فیصد ہی تھے۔ پنجاب میں ان کی آبادی صرف 20 فیصد تھی اور یہ کسی بھی علاقے میں اکثریت میں موجود نہیں تھے۔

سکھوں کا تمام تر غصہ مسلمانوں کے خلاف تھا کیونکہ پنجاب کی تقسیم برصغیر کی تقسیم کی وجہ سے تھی اور برصغیر کی تقسیم کی وجہ پاکستان کا قیام تھا اور یہ مطالبہ مسلمانوں کا تھا۔ سکھوں کی نفرت یہاں تک پھیل گئی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ رہنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ پنجاب کے حالات خراب ہو رہے تھے اورسکھوں میں بےچینی پھیل رہی تھی۔ گورنر پنجاب نے سکھوں کی تشفی کے لئے ایک اور منصوبہ پیش کیا۔ پنجاب کو مسلم اکثریت اور غیر مسلم اکثریت کے دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ حدبندی کے لئے کمیشن قائم کیا جائے جس کے ممبر مجموعی طور پر چار ہونگے جس میں دو مسلم اور دو غیر مسلم ہونگے۔ لیکن سکھوں نے اس منصوبے کو قبول نہیں کیا کیونکہ ان کا اعتماد برطانیہ سے اٹھ چکا تھا۔ مارچ اور اپریل 1947 برصغیر میں شدید سیاسی کشماکش کا دور تھا۔ ان حالات میں سکھوں نے اپنے تمام تر معاملات کانگرس کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔ مارچ 1947 میں کانگرس نے ایک اعلانیہ پیش کیا کہ اگر پاکستان بنانا ہے تو پنجاب کو لازمی تقسیم کیا جائے گا۔ اس کے بعد سکھوں نے وائسرائے کو اپنی رضامندی کانگرس کے ذریعہ بجھوا دی لیکن وائسرائے حیران تھا کہ سکھ اپنی کمیونٹی کی تقسیم پر کس طرح رضامند ہوگئے۔ مارچ 1947 کو پنجاب کے وزیراعلیٰ خزر حیات (یوننسٹ پارٹی) مسلم لیگ کی شدید مخالفت کے پیش نظر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے جس کے بعد پنجاب میں گورنر راج لگا دیا گیا۔ اب مسلم لیگ اس کوشش میں تھی کہ وہ دوسرے بڑی پارٹی ہونے کی وجہ سے پنجاب میں اپنی حکومت قائم کر لے لیکن راولپنڈی ڈویژن میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں سکھ اس حکومت کی شدید مخالفت کررہے تھے اور اس وجہ سے وائسرئے بھی مسلم لیگ کو حکومت دینے پر تیار نہیں تھا کیونکہ سکھ برٹش حکومت کے وفادار رہ چکے تھے۔ اس سے پہلے سکھ پاکستان کے مقابلے پر اپنی ریاست کا مطالبہ بھی کرچکے تھے ایسا ہی ایک مطالبہ سکھوں کی طرف سے 1930 میں بھی کیا گیا تھا۔ پنجاب کی تقسیم میں مسلم اکثریتی علاقے ملتان اور منٹگمری پر سکھوں کی نظر تھی جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ گرداسپور، ہوشیار پور، جالندھر، امرتسر اور فیروزپور کو پاکستان میں شامل کرنے کے خواہشمند تھی۔ اس صورت حال میں گورنر پنجاب نے فیصلہ کیا کہ امبالہ اور جالندھر ڈویژن اور اور امرتسر غیر مسلموں کو ملے گا جبکہ ملتان، لاہور اور امرتسر کا کچھ حصہ پاکستان میں شامل ہونگا۔ اپریل 1947 کو دہلی میں سکھ ہندو اجلاس منعقد کیا گیا جس میں مکمل امبالہ، جالندھر اور لاہور جبکہ ملتان کے کچھ حصے کا مطالبہ کر دیا۔ سکھ جب ہر طرف سے مایوس ہوگئے تو ان کے لیڈروں نے ماہاراجہ فریدکوٹ راجہ ہاریندر سنگھ کو اس بات کی دعوت دی کہ وہ فیروزپور، لدھیانہ اور لاہور کے کچھ حصوں پر حملہ کرکے اس پر قبصہ کرلے۔ اس چیز کی اطلاع وائسرائے کو مل گئی اور برٹش حکومت کے اطلاع دہندہ اس بات کی بھی تصدیق کررہے تھے کہ سکھ برادری مجموعی طور پر اس قسم کی مہم کے حق میں تھی۔ یہ بات بھی زیادہ پریشان کن تھی کہ ہندوستانی افواج میں سکھ اچھی خاصی تعداد میں تھے۔ سکھوں کے کچھ نمائندے 1 اگست 1947 کو برطانیہ بھی گئے تا کہ سکھوں کے جذبات سے ان کو آگاہ کیا جاسکے لیکن وہاں ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ پنجاب کی تقسیم ایک بہت بڑا مسئلہ تھا اور برٹش حکومت اس کی تقسیم کو بازور طاقت کرنے کا سوچ رہی تھی تو دوسری طرف سکھ بھی طاقت استعمال کرنے کے لئے تیار تھے۔ سکھوں کے لیڈر اپنے نوجوانوں کو اس بات کے لئے تیار کررہے تھے کہ ان کو بازور طاقت اپنی سرزمین حاصل کرنے کئے تیار رہنا چاہیے۔ سکھوں کی یہ ذہنیت مارچ اور اپریل 1947 سے ہی شروع ہوچکی تھی جب سکھوں کے 18 اہم لیڈروں نے 50 لاکھ سے جنگ فنڈ قائم کیا۔ لیکن انہوں نے مسلمانوں پر فوری حملہ نہیں کیا کیونکہ اس طرح ان کو برٹش حکومت کی حاصل حمایت ختم ہونے کا اہتمال تھا۔ برٹش حکومت اس بات کا اعلان کرچکی تھی کہ اگر سکھوں نے حالات خراب کرنے کی کوشش کی تو ان کو زمینی اور فضائی طاقت سے کچل دیا جائے گا۔ ایک طرف سکھ پنجاب کی، اپنی امنگوں کے خلاف تقسیم کی صورت میں، طاقت کے استعمال کے منصوبے بنانے میں مصروف تھے تو دوسرے طرف حکومت برطانیہ پنجاب کی تقسیم کا کام کرنے میں مصروف تھی۔ ریڈکلفٹ باونڈری کمیشن کی رپورٹ اگست 1947 کو پیش کی گئی جس کے مطابق 62000 اسکویئر میل کا علاقہ پاکستان میں شامل کیا گیا جس میں 15800000 مسلمان آباد تھے جب کہ 37000 سکوئیر میل کا علاقہ بھارت میں شامل کیا گیا جس کی 12600000 آبادی تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد 4375000 تھی۔ اس ایوارڈ میں پاکستان کو بہت سے علاقوں سے محروم کردیا گیا۔ اس غیر منصفانہ تقسیم کے باوجود سکھ بہت زیادہ مایوس ہوئے کیونکہ ان کے مطلوبہ علاقے منٹگومری (سیالکوٹ)، لائلپور (فیصل آباد) اورشیخوپورہ کے علاقے پاکستان میں شامل ہوچکے تھے۔ پنجاب میں حالات خراب ہونا شروع ہوگئے، سکھوں کو ہندوؤں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ پٹیالہ کے مہاراجہ نے سکھوں کوافرادی قوت، اسلحہ اور برودی مواد فراہم کیا اور اسی طرح کی مدد باقی سکھ مہاراجوں کی طرف سے بھی کی گئی۔ خان لیاقت علی خان نے وائسرائے سے اپیل کی کہ مسلمانوں کو اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جائے جو کہ سکھوں کو 1924 کو حاصل تھی، لیکن یہ اپیل مسترد کردی گئی۔

ہندوستان کی تقسیم کے لئے ہندووں رضامند نہیں تھے کیونکہ ان کے نزدیک ہندوستان کا درجہ مقدس گائے جیسا تھا لیکن مسلم لیگ کی تحریک کے نتیجے میں ان کی مقدس گائے تقسیم ہوگئی اور ایک بہت بڑا حصہ ہندوؤں کے ہاتھ بھی لگا لہذا یہ مقدس گائے کی تقسیم کو قبول کرگئے۔ برصغیر کی تقسیم جتنا بڑا مسئلہ تھا اتنا ہی بڑا مسئلہ پنجاب کی تقسیم بھی تھا، پنجاب میں ایک تیسری بڑی اقلیت سکھ تھے جو کہ پنجاب کے حاکم بھی رہ چکے تھے اور بعد ازاں انہوں نے پنجاب کے بیشتر علاقوں میں اپنی کالونیاں قائم کر رکھی تھی۔ سکھوں کا حال بھی ہندوؤں جیسا ہی تھا لیکن یہ تعداد میں بہت ہی کم تھے، پنجاب ان کے نزدیک ایک مقدس اور مذہبی سرزمین تھی وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود پنجاب کی تقسیم کو روک نہیں سکے۔ سکھ اپنی کم تعداد کو اپنی وفاداریاں برٹش حکومت کے نام کرکے بیلنس کرتےتھے لہذا پنجاب کی تقسیم مسئلہ بنی رہی کیونکہ برٹش سکھوں کو خوش کرنے کی کوشش میں بھی تھے۔ کانگرس نے سکھوں کے ساتھ ہاتھ کیا اور برٹش گورنمنٹ سے اکثر علاقے جوکہ مسلم اکثریت کے ساتھ ساتھ سکھ اکثریت کے بھی تھے، بھارت میں شامل کروالئے۔ اس سے سکھ آبادی پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہوگئی، اس تقسیم میں مختصر ترین مدت میں دنیا کی سب سے بڑی ہجرت اور سب سے بڑا قتل عام کیا گیا۔ یہ تمام قتل عام سکھوں کے مرہون منت تھا جس میں ہندوؤں بھی شامل تھے۔ یہ وہ قتل عام ہے جو پنجاب میں ہوا لیکن تمام ہندوستان میں سکھ، مسلم اور ہندو تقسیم سے ہٹ کر تقسیم ہندوستان میں انسانوں نے انسانوں کا قتل عام کیا۔