1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسنین حیدر/
  4. حُسین ع وسیلہ تھیوی

حُسین ع وسیلہ تھیوی

ہم مڈل کلاس لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ ہم پرسکون زندگی گزار سکیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ امیر اور غریب کی نسبت سب سے زیادہ پینک یہی طبقہ رہتا ہے۔ ایک تو معاشی معاملات Hand To Mouth ہوتے دوسرا سماجی معاملات میں بھی خود ساختہ چپقلش رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ اکیس برس کا ہوکر بھی آج بےوجہ frustration کا شکار ہوجاتا ہوں۔ قبیلے سے فکری و اعتقادی اور اقدار ی بغاوت کی بنا پر شدید دباؤ کا شکار رہا ہوں۔ یہاں تک کے برادری کُجا؟ خاندان کے لوگ کہتے کہ تجھے قتل کردینگے۔ اور ہمیشہ عیدین کے موقع پر کچھ نہ کچھ ایسا کرتے کہ گھر میں فقط میرے ساتھ ہی جھگڑا ہوتا۔ مجھے کسی کے عقیدے، کسی کی سیاسی فکر یا کسی کی ذاتی زندگی کے اعمال وافعال سے کوئی غرض نہیں۔ جو جہاں ہیں، وہیں مرے، میرا کیا؟ ظاہر ہے کہ ہٹ دھرم، متعصب و شدت پسند جو عقلی و منطقی دلیل اور مقدس استدلال سے انکار کرے، اس کیلئے اس سب کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں؟

اس سب میں میرے لئے کہ جہاں خطرات ہیں، کہ رشتے داروں کیلئے اب وجود ہی برداشت نہیں ہوتا۔ افکار کا شعر ہے نا کہ:

دشمنی کے ہزاروں درجے ہیں،

آخری درجہ رشتہ داری ہے!

اس سب کے باوجود میرے دل میں ہر بشر کیلئے عزت و احترام اور اس کے نظریات کا اختلافات کے باوجود پاس ہے۔ اسی لئے کہتا ہوں کہ:

جیڑھے دیوانہ ساکوں سڈیندن اوہے پیمبر ساکوں منیسن،

جڈاں شرافت دی رسم چلسی جڈاں محبت رواج بنڑسی!

یہاں لفظِ دیوانہ بھی بہتر ہے جوکہ پاگل کے زمرے میں مجھے کہا جاتا ہے اور یہاں کافر کا لفظ بھی اس شعر کی معراج ہوگا۔

پہلی تعارفی تحریر میں بیان کیا تھا کہ مجھے والد صاحب کی طرف سے موسمی سوغاتیں ملتی ہیں۔ ایک نفسیاتی و سماجی فیکٹر کارفرما ہے،جب روایتی اقدار سے انحراف کیا جس کا دباؤ پڑا، اور بابا سائیں کی تمام تر منشا کے مخالف جاکر تعلیمی مضامین تبدیل کردیئے تو ان کو سماجی تفاعل کی مد میں متضاد ردِعمل ملا۔ لوگوں کی 'مروتوں کی مٹھاس' نے انہیں متاثر کیا کہ مجھ پر سوغاتیں برسیں۔

اس سب کے باوجود ایک چیز جو لطف دیتی ہے، جس نے یقینِ کامل دلا رکھا کہ میری ناؤ کبھی نہ ڈوبے گی، وہ ہے 'اماں سینڑ' کا ایک جملہ، کہ کل جب پیپر دینے جانے لگا، حالت یہ تھی کہ سال بھر بیگ نہ کھولا تھا، بستے پہ گرد ابھی تک موجود ہے۔ قر سلیبس Cover نہ ہوسکا۔ تو ہمیشہ کی طرح امی دروزے تک آئیں اور کہا "حُسین ع وسلیہ تھیووی!!!"

امامِ حسین (علیہ سلام) کی ذاتِ مقدسہ لجپال نبیﷺ کی لجپال اولاد ہے۔ جنگِ صفین میں مولا علی (علیہ سلام) اپنے بیٹوں میں سے محمدِ حنفیہ (خدا کا درود ہو انکی ذات پر) اور حضرتِ عباس (علیہ سلام) کی ذات کو یہ کہہ کر میدانِ رن میں بھیجا کہ حسنین کریمین (علیہم السلام) اولادِ نبی ص ہیں۔

حدیثِ مبارکہ ہے کہ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، بضعة منی۔۔۔ جگر یا قلب کا ٹکڑا نہیں۔ اور حسین ع جو فاطمہ س کا نورِ عین ہے، وہ کیونکر رسول ع کا ٹکڑا نہیں؟ حسین منی وانا من الحسین۔۔۔ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔۔۔ خدا کے مقرب ترین پیامبر کہ وجہ تخلیقِ کائنأت ہیں انکے لاڈلے بیٹے کا وسیلہ کیونکر خدا قبول نہ کرے گا۔

پس زندگی کا کوئی موڑ بھی مشکل نہیں کہ ماں نے کہہ دیا ہے 'حُسین ع وسیلہ تھیوی!'