1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسنین حیدر/
  4. کہیں ہم بھی ابنِ ملجم تو نہیں؟

کہیں ہم بھی ابنِ ملجم تو نہیں؟

جب بھی مولا علی کی ذات کو دیکھتا ہوں، بعد از رسول ص منفرد شخصیت ہیں۔ امت نے ثقیفہ کے تحت غدیر کو فراموش کیا تو فتنہ گروں کے ہاتھوں بقائے اسلام کی خاطر دین کو بچایا نہ کہ ثقیفائی سوچ کو تقویت دی۔ اسی طرح شوریٰ میں جاکر خود کو اب بھی حقدار بتانا مقصد تھا تو شوریٰ میں بلائے جانے پر پہلے بھی خود کو ہی حقدار منوانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شوریٰ کی شرائط میں قرآن و سنت کے علاوہ کسی کی بھی روش کی تقلید کا انکار کیا۔ بعد از رحلتِ رسول ص تا مروجہ خلافت کے حصول تک مولا علی ع خاموش نہیں رہے۔ یہ قطعاً درست نہیں کہ مولا Isolate ہوگئے، تنہا ہوگئے یا کنارہ کرلیا۔ بلکہ مولا علی ع کی یہ پچیس سالہ زندگی ایک انقلابی سطح کی متاثر کن سیاسی زندگی رہی ہے۔

سیاسی سرگرمیوں میں درباروں میں خود کو عادل، معاملہ فہم، بابصیرت و بامعرفت ثابت کرنا، اور لوگوں کو بھولا ہوا غدیر کا سبق و بیعت یاد کروانا تھا، گویا کسی کی نفی ہورہی ہو۔ یونہی تو نہیں امت کا سیلاب بیعت کرنے کو دوڑ پڑا تھا۔ اور خود ہی ایسی بیعت کی کہ زبردستی خلیفہ بنا رہے ہیں۔ ورنہ امیدوارانہ خلافت و جاہ و ہشم تو بہت سے افراد موجود تھے، اور یقیناً انکی بیک ڈور سرگرمیاں بھی ہونگی مگر معاشرہ کیونکر امام ع کی طرف دوڑا؟ کیونکہ نظامِ الہیہ میں خرابی کو ٹھیک کرنے کا علی ع کے علاوہ کوئی ہنرمند تھا ہی نہیں۔

آپ ع نے جب امت کے امور کی باگ ڈور سنبھالی تو اس وقت معاشرہ انتشار و خلفشاریوں کا شکار ہوچکا تھا۔ جس معاشرے کو رسولِ خدا ص نے قبائل و برادریوں کی بجائے امتِ مسلمہ کے عنوان سے ایک کیا تھا وہ پچیس سال کے عرصے میں پھر اسی حالت پر کھڑا تھا۔ مولا علی علیہ سلام نے جب امت کو الہیہ تعلیمات کے تحت امتِ واحدہ بنانا چاہا، اسے کمال تک پہنچانا چاہا تو ان کے سامنے بنیادی طور پر دو گروہ سامنے آ کھڑے ہوئے۔ یہ ویسی ہی صورتِ حال تھی جو رسول اللہ ص دعوت و تبلیغِ اسلام کے وقت درپیش آئی۔ مگر فرق یہ تھا کہ رسولِ خدا ص کے مقابلے میں مشرکینِ مکہ اور عرب کے یہودی تھے۔ جبکہ امیر المومنین ع کے سامنے کلمہ گو مسلمان تھے۔ جنکا رہن سہن مسلمانوں سا تھا۔ جن کی چال و گفتار مسلمانوں جیسی تھی۔ مگر حقیقت میں یہ کیا تھے؟

شہید مرتضی مطہری ؒ اس متعلق فرماتے ہیں کہ یہ دو گروہ ایسے تھے کہ ایک کو معلوم تھا کہ وہ جو عمل انجام دے رہے اس سے اسلام کو نقصان پہنچے گا۔ جبکہ دوسرا ظاہراً تو اچھا کرنا چاہ رہا ہوتا تھا مگر اس کے عمل سے اسلام کو نقصان پہنچتا۔۔۔ جبکہ اول گروہ کا مقصد ہی اسلام کو نقصان پہنچانا ہی تھا۔ اسلام کی بنیاد کو کمزور کرنا ہی مقصد تھا۔ جبکہ دوسرا گروہ قرآن و سنت کی من چاہی تاویلات کی وجہ سے گمراہ ہوا۔ ایک گروہ نہروان میں آ وارد ہوا تو دوسرا گروہ صفین کے میدان میں آ دھمکا۔ اس سے اسلامی تاریخ کی بدترین خونریزی ہوئی۔ اور اسکے زمہ دار وہی نہروان و صفین میں امامِ برحق ع کے خلاف آنے والے دونوں گروہ ہیں۔

جب ہر طرح سے دشمن کو پسپائی حاصل ہوئی تو آخر امام ع کی جان کے درپے ہو لئے اور قتلِ امام ع کروا ڈالا۔ جب مولا علی ع کو ضربت لگی، بطور الہیہ امام، جوکہ منصوص من اللہ ہونے کے ناطے آفاقی تھے، ابنِ ملجم ملعون سے فرماتے ہیں کہ کیا میرا تیرا اچھا امام نہ تھا؟ آہ یا علی!!! کس قدر بہترین اور کامل ترین امام ہیں آپ!!! دشمن نے کیونکر امام علی ع کو شہید کرنا چاہا؟ اس کا جواب امام علیہ سلام کی آخری وصیت میں ملتا ہے۔

امام ع زندگی گزارنے کا ایک جامع اصول بتا رہے ہیں، فرماتے ہیں کہ تم (دونوں) کو خدا سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، دنیا سے بےثبات رہنا۔ جو بھی کہنا حق کہنا۔ مظلوم کے حامی رہنا، ظالم سے برات اختیار کرنا۔ اور اپنے امور منظم رکھنا۔ خدا کی راہ میں مال و جان و زبان سے جھاد کے معاملے میں ڈرتے رہنا۔ ہمسائیوں کے حقوق کا خیال کرنا۔ اور میرے قتل کے بدلے میرا قاتل ہی قتل کیا جائے۔

امیر المومنین ع نے انسانی زندگی کو منزلِ تکمیل تک پہنچانے کا کلیہ بتاتے ہوئے فرمایا ہے کہ اپنے امور منظم کرو۔ یعنی زندگی کہ ہر شعبہ میں ہمیں نظم و ضبط رکھنا ہے، بےہنگم زندگی نہ ہو۔ نہ ہی امیر ع چاہتے تھے۔ یہ امت کی پھٹکار ہے کہ اس نے جنابِ امیر ع کے علاوہ ریوڑ کی طرح رہنا خود کیلئے پسند کیا۔

اور جنابِ امیر ع کے مقصد کو روکنے کیلئے ابنِ ملجم کے ہاتھوں قتل سرزد ہوا۔ سوچتا ہوں اپنے ملجم و دشمنان نے مقصد سے روکنے کیلئے مولا علی ع کو شہید کیا، جبکہ محبانِ علی علیہ سلام اور امتِ مسلمہ کی بڑی تعداد جنابِ امیر ع کے پیغام و مقصد سے دور ہے، اور مقصد پر عمل پیرا ہونے کو تیار ہی نہیں تو کہیں ہم بھی ابنِ ملجم تو نہیں؟