1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسنین حیدر/
  4. پاکستان کیمپ پالیٹیکس پہ یقین نہیں رکھتا؟

پاکستان کیمپ پالیٹیکس پہ یقین نہیں رکھتا؟

آرمی چیف نے نجانے کس کو راضی کرنے کیلئے بیان داغا ہے مگر پاکستان کی تاریخ پہلے دن سے ہی کیمپ پالیٹیکس کا شکار رہی ہے۔ لیاقت علی خان کو جب روس و امریکہ سے دعوتیں ملیں تو سفارتی حق یہ تھا کہ دونوں طرف کی دعوتیں قبول کرتے اور دونوں کو پیغام دیتے کہ ہم پوری دنیا سے برابری اور باہمی مفادات کی غرض سے تعلقات کے خواہ ہیں، مگر لیاقت علی خان صاحب امریکہ گئے اور کینساس یونورسٹی میں جو جمہوریت کے عنوان سے امریکہ کے گیت گئے، اسکی مثال نہیں ملتی۔ یوں اول روز سے ہم امریکی کیمپ میں داخل ہوگئے اور ڈائریکٹ سرد جنگ میں ملوث ہوگئے۔

رہی سہی کسر سیٹو اور سینٹو کے معائدوں نے پوری کردی۔ عزت یہ ملی کہ عالمی سامراج یعنی جمہوری بزرگوں نے بھارتی منصوبے کو ایما دی اور بنگلہ دیش الگ ہوگیا۔ یہاں ایک خوددار لیڈر یہ کہہ کر سلامتی کونسل سے اٹھے کہ ہم لڑیں گے! کس لئے؟ ملکی عزت و سلامتی اور خودمختاری کیلئے۔ مگر گھر کے بھیدی اٹھ کھڑے ہوئے اور ڈالرز کیلئے ماں تک بیچ ڈالی، مطلب دھرتی ماں کی عزت!

گھر کے بھیدیوں نے لنکا ڈھا دی اور سیاسی عدمِ استحکام کے باعث مارشل لا نافذ ہوا۔ اسلام کی ڈھال اٹھائے سنتِ رسول ﷺ کا احیا کا نعرہ بلند کرتا ایک کلین شیو انسان قوم کو دس سال بُدھو بناتا ہے اور خطے میں امریکی مفادات کیلئے پاکستان بیسک نرسریز فراہم کرتا ہے اور ہم روس کے خلاف اِن ڈائریکٹ جنگ لڑتے ہیں۔ تو کس زاویے سے ہم کیمپ پولیٹیکس پہ یقین نہ رکھیں؟

مفادات کی کروٹ بدلی تو آموں کا شکرانہ ادا ہوا ملک میں انتخابات منعقد ہوئے، "ریاستی حلقوں کی پیداوار" نواز شریف اور بےنظیر مدِمقابل نظر آئے۔ بےنظیر امریکی سینٹ فلور پر کھڑے ہوکر جمہوریت بہترین انتقام ہے کی صدا بلند کرتی ہیں۔ جھگڑا جس کسی سے ہو، مگر امریکہ جمہوریت پسند ملک ہے اور روس میں جمہوری رویے نہیں ہیں۔ کیمپ پالٹیکس کیسے نہیں؟ جبکہ ہمارا دشمن ملک بھارت امریکہ و روس دونوں سے بنا کر چل رہا ہے۔ پاکستان کو آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ کب لومڑی بننا ہے اور کب دھاڑنا ہے۔

بات چلتے چلتے نائن الیون پر پہنچتی ہے اور ہم ایک فون کال پر لیٹ جاتے ہیں۔ کیمپ پالٹیکس کیسے نہیں؟ ہم نیٹو اتحاد کا افغانستان میں حصہ بنتے ہیں اور بیس سال خواہخواہ ملک میں دہشتگردی درآمد کرتے ہیں۔ ہمیں سلالہ چیک پوسٹ اور آرمی پبلک سکول پشاور کی صورت میں سوغاتیں موصول ہوتی ہیں۔

مگر نہیں! ہم کسی بھی کیمپ کا حصہ نہیں، کسی کیمپ پالیٹیکس پہ یقین نہیں رکھتے! تبھی تو وزیرِاعظم پاکستان نے چوبیس سال بعد روس کا سرکاری دورہ کیا اور دنیا سے کہا کہ ہم پوری دنیا سے دوطرفہ مفادات کی بنیاد پر تعلقات چاہتے، لیکن سیاسی حلقے ہوں یا ریاستی اداروں کے بعض افراد، انہیں یہ بات قطعاً پسند نہیں آئی۔ ہمیں روس جانے کی ضرورت نہیں کہ امریکہ ناراض ہوجاتا ہے۔

روس سے تعلقات کی کیوں ضرورت ہے؟ روس سے تعلقات کسی خاص ریاست کی ضرورت نہیں بلکہ خطے کا مفاد اِسی میں ہے۔ چین نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا جو جال بچھایا ہے وہ یوکرین سے لے کر چابہار تک ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ چین کو ون بیلٹ ون روڈ کی ضرورت کیوں پڑی؟ یقیناً آپ سب کواڈ نامی اتحاد سے تو واقف ہی ہونگے جو چین کے خلاف ٹرائی اینگل کی صورت میں ہے جس میں بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔

یہ اتحاد سٹریٹجکلی چین کیلئے خطرہ ہے۔ چین کی سب سے بڑی مارکیٹ برِاعظم افریقہ ہے، اور معاشی جنگ میں چین نے امریکہ کو تقریباً افریقہ سے بےدخل کردیا ہے۔ اسکے علاوہ چین مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیائی و خلیجی ریاستوں میں بھی امپورٹ ایکسپورٹ کرتا ہے۔ چین کا سمندری روٹ غیر محفوظ ہے کہ چین کو تجارت کیلئے اس کواڈ کے سمندری ٹرائی اینگل سے گزرنا پڑتا ہے۔

اس روٹ کو محفوظ بنانے کیلئے چین نے تقریباً نوے سے سو سال کیلئے سری لنکا کی بندرگاہ بھی لیز پر لی اور اپنے لئے بطور بیس کا کام اختیار کیا تاکہ بھارت کو کنٹرول میں کیا جاسکے۔ دوسرا رستہ زمینی ہے جوکہ نسبتاً محفوظ بھی اور کم فاصلے پہ بھی مبنی ہے۔ وسط ایشیائی و خلیجی ریاستوں اور یورپ تک راستے کیلئے یہ روٹ یوکرین تک جا رہا ہے، جبکہ مشرقِ وسطیٰ تک رسائی کیلئے سی پیک کے زریعے یہ روٹ ایرانی بندرگاہ چابہار تک چابہار سے آگے مصری تجارتی روٹ کے زریعے چین مال بردار و تیل بردار جہاز آرام سے مطلوبہ ممالک تک تجارت کرسکتے ہیں۔

یقیناً آپ اس بات سے بھی واقف ہونگے کہ روس نے افغانستان پہ حملہ اس غرض سے بھی کیا تھا کہ وہ افغانستان سے ہوتا ہوا پاکستانی بلوچستان کی بندرگاہ گوادر تک پہنچے تاکہ گرم پانیوں تک رسائی ممکن ہو۔ اب جبکہ جنگ یا یلغار کی ضرورت نہیں رہی، چین کے ون بیلٹ ون روڈ نے بہت سے ممالک کے مفادات کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ افغانستان، کرغستان، ازبکستان، آزربائیجان، ترکی، روس سمیت پاکستان و چین اور ایران اس منصوبے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور ان سب کے مفادات یکساں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے نکالنے میں یہ تمام ممالک سرتوڑ کوششیں کرتے رہے اور امریکہ کے افغانستان میں آخری سال میں افغانستان کے پار کی ایک ریاست میں ایک سمٹ بھی ہوا البتہ امریکی آفیشلز نے بھی شرکت کی۔ روس بھی اپنے سٹریٹجک معاملات کو محفوظ بنانا چاہتا ہے اور طاقت کا توازن چونکہ اب بدل رہا ہے تو خطے کے ممالک استحکام اور خوشحالی کی طرف ایک نیا دور شروع کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان اگر خودمختار اور آزاد خارجہ پالیسی کی بات کرتا ہے، ہم آپ کے غلام نہیں ہیں کی بات کرتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم اب مزید آپکی فون کالز پہ لیٹنے والے نہیں، اب ہم برابری کی سطح پہ تعلقات چاہتے ہیں۔ جس میں آقا و غلام والا سلوک نہیں ہوگا بلکہ عزت کرو گے تو عزت ملے گی والا کُلیہ اپلائی ہوگا۔