1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسنین حیدر/
  4. ضمنی الیکشن پی پی 90

ضمنی الیکشن پی پی 90

حلقہ پی پی 90 کیلئے پی ٹی آئی کا ٹکٹ عرفان اللہ خان نیازی کیلئے کنفرم ہوچکا ہے۔ جبکہ دوسری طرف deseat ہونے والے جہانگرین ترین گروپ کے پارلیمانی لیڈر سعید اکبر خان نوانی جوکہ سابقہ ایم پی اے بھی ہیں، نون لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

پاکستانی سیاسی تاریخ میں یہ حلقہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ جب موجودہ وزیرِ اعظم کو پنجاب اسمبلی کیلئے سیٹ نہ مل رہی تھی تو وہ اسی حلقہ سے جیت کر رکن پنجاب اسمبلی بنے تھے۔

اس وقت یہ حلقہ ملکی سیاست میں اہم سمجھا جا رہا ہے۔ ایک طرف سعید اکبر خان نوانی ہیں تو دوسری طرف عرفان نیازی جو سابقہ جنرل سیکرٹری نون لیگ ہیں۔ ساتھ ہی کہاوڑ اتحاد بھی اپنا امیدوار اظفر کہاوڑ میں شکل میں میدان میں اتار چکے ہیں۔

الیکشن 2018 کے اعداد و شمار اور ٹکٹ کے حصول کیلئے عوام کو کنفیوز کرنے والے کافی تضاد رکھتے ہیں۔ کیونکہ کہاوڑ گروپ کا کل ملا کر سرتوڑ کوششوں کے بعد ووٹ دیکھا جائے تو کم و بیش بیس سے پچیس ہزار بنے گا۔ جبکہ اظفر کہاوڑ کو الیکشن 2018 میں ٹوٹل 335 ووٹس پڑے اور خود PTI کے امیدوار کو 12994 ووٹ ملے۔

سعید اکبر نوانی 59350 ووٹس کے ساتھ فاتح رہے تھے اور PPP کے امیدوار اعجاز خان شہانی کو 7863 ووٹس پڑے۔

سعید خان کو اس وقت اگر مضبوط ٹکر کوئی دے سکتا ہے تو عرفان نیازی ہی ہے۔ کیونکہ نوانی گروپ ضلع بھکر کی گراٶنڈ لیول سیاست تک مضبوط ہے۔ اور ان کیلئے نون لیگ کی ٹکٹ بھی اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنے وہ اپنے حلقوں میں سیاست پر گرپ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف چونکہ اس ضلع کی سیاست دھڑے بازی اور برادری حمایت کی ہے تو عرفان نیازی نسبتاً نوانیوں کی طرح اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔ جبکہ اظفر کہاوڑ اس وقت غیرمعروف شخص ہے جو محدود سطح پر لوگوں سے میل جیل رکھتا۔ باقی کہاوڑ برادری مل کر ایک اچھی پوزیشن بنا لیتی ہے۔

کہاوڑ اتحاد اگر اپنی سیاست کیلئے حتماً الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، تو یہ اپنے مفاد کیلئے اُس پارٹی کو نقصان پہنچانے والی بات ہے جس سے وہ وفاداری کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف نوانی گروپ بھی یہی چاہتا کہ انکے مقابلے میں شہاب کھوکھر یا اظفر جیسا کمزور امیدوار اترے جو آسانی سے ہار سکے۔

اگر PTI کے سپورٹرز واقعی دریا خان میں امپورٹڈ حکومت نامنظور کے نعرے کے تحت امریکی سازش اور اسٹبلشمنٹ کی ملی بھگت سے بننے والے "غیرفطری اتحاد" کو شکست دینا چاہتے ہیں تو اُنہیں یکجان ہوکر عرفان نیازی کو سپورٹ کرنی چاہئے جو اپنا ووٹ بنک رکھتے ہیں۔

دوسری طرف اظفر کہاوڑ اور کہاوڑ اتحاد اپنی سیاسی ساکھ حلقے میں قائم کرنا چاہتا ہے تو اُسے PTI کی اعلیٰ قیادت اور عرفان خان سے اِس شرط پہ لازمی اتحاد کرنا چاہئے کہ تحصیل چیئرمین شپ کہاوڑ گروپ کے ہی امیدوار کیلئے PTI کی طرف سے وقف ہوگی۔

یہ وہ جوڑ ہے جو حلقے میں لوکل باڈیز سے لے کر عوامی سطح پر PTI کو بھی مضبوط کرسکتا ہے اور سیاسی امیدواروں کو مضبوط بھی کرسکتا۔ MNA کیلئے ثنا اللہ مستی خیل، MPA کیلئے عرفان نیازی اور تحصیل چیئرمین کیلئے کہاوڑ اتحاد میں سے امیدوار اس حلقے میں ان سب کیلئے موزوں ترین ہے۔ کیونکہ اِس وقت PDM کی صورت میں تمام جماعتیں آنے والے ضمنی الیکشن میں متحد ہیں اور کوئی دوسرا امیدوار سعید خان کے مقابلے میں کوئی بھی جماعت کھڑا نہیں کرے گی۔ PDM جماعتوں کا سارا ووٹ سعید خان کو پڑے گا۔ اور اگر PTI امیدوار کے علاوہ PTI سے وابستہ کہاوڑ گروپ یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا تو وہ PTI ووٹ بنک کو تقسیم کرنے کی وجہ بنے گا۔

بجائے انا کی تسکین کے، مجموعی مفاد کو اہمیت دے کر ایک دوسرے کیلئے آسانیاں پیدا کی جائیں تاکہ سب کی سیاسی ساکھ باقی رہے۔ اگر اسی فارمولے پر اتحاد نہیں بنتا تو یہ سب الیکشنز ہار کر قُل خوانیاں اور شادیوں پر ہی نظر آیا کرینگے، اسمبلی فلور پر نہیں۔ کیونکہ جو شخصیات PTI حکومت کے خاتمے پر ریلیاں نکالنے والی عوام کو اپنا ووٹ بنک سمجھ رہے وہ غلط فہمی میں ہیں۔ ثنا اللہ مستی خیل کو بھی اپنے ووٹ بنک کے علاوہ ووٹ نوانی گروپ کی وجہ سے بھی ملا۔ تو ریلیوں والا سارا ووٹ بھی PTI ٹکٹ ہولڈر کو ہی پڑے گا۔