شیر کی کچھار میں سورج کی پہلی کرن پڑتی ہے۔ شیر انگڑائی لیکر بیدار ہوتا ہے۔ کچھ حواس بحال ہوتے ہیں تو سوچتا ہے۔۔ زوروں کی بھوک لگی ہے۔ کسی بکری، کسی میمنے کسی ہرن کا شکار کرتا ہوں۔۔ بھوک مٹاتا ہوں، مجبور کا شکار درندے کی حیات کی ضمانت ہے۔
سانپ بل سے نکلتا ہے۔ صبح کا ملجگا اندھیرا ہے۔ بھوک مجبور کررہی ہے کہ کچھ کھایا جائے۔ سوچتا ہے کسی درخت پر چڑھتا ہوں کسی چڑیا، کسی مینا کے بچے کھاتا ہوں۔۔ کمزور کا شکار موذی کی زندگی کی ضمانت ہے۔
میاں صاحب ناشتہ کی میز پر بیٹھے ہیں۔ بی بی صاحبہ کہتی ہیں خرم کا فیس واؤچر آیا ہے۔ سکول والوں نے جنوری سے فیس پانچ ہزار بڑھا دی ہے۔ اس ماہ پینتیس ہزار فیس جمع کروانا ہوگی۔ میاں صاحب محکمہ تعمیرات میں اوورسیئر ہیں۔ کچھ تفکرکے بعد گویا ہوتے ہیں، فکر نہ کرو ٹھیکیدار کی گردن دبوچتا ہوں آج۔۔ بہت دن سے یہ میرے قابو نہیں آرہا۔۔ کل فیس جمع ہوجائے گی۔